کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 289
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
((تَؤُمُّ الْمَرْأَۃُ النِّسَائَ تَقُومُ فِي وَسْطِہِنَّ))
’’عورت عورت کی امامت کرواسکتی ہے، لیکن امامت کے وقت وہ عورتوں کے درمیان ہی میں کھڑی ہوگی۔‘‘[1]
اسی طرح سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق بھی مروی ہے:
((أَنَّہُ کَانَ یَأمُرُ جَارِیَۃً لَہُ، تَؤُمُّ نِسَائَہُ فِي رَمَضَانَ))
’’آپ اپنی لونڈی کو حکم دیتے تھے، پس وہ رمضان المبارک میں عورتوں کو باجماعت نماز پڑھاتی تھی۔‘‘[2]
ان تمام روایات کے مطالعے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عورت دوسری عورتوں کی فرض اور نفل (تراویح) ہر دو طرح کی نمازوں میں بلا کراہت امامت کرواسکتی ہے۔ جن نمازوں میں جہری (بلند آواز سے) قراء ت کی جاتی ہے ان میں اونچی آواز سے قراء ت بھی کرسکتی ہے۔ ہاں اگر آس پاس غیر محرم مرد ہوں تو پھر قراء ت اونچی آواز سے نہ کرے، لیکن اگر اس امام عورت کے محرم مرد ہوں تو قراء ت بالجہر میں کوئی حرج نہیں ہے۔ [3]
[1] مصنف عبدالرزاق، الصلاۃ، باب المرأۃ تؤم النساء: 140/3، ح:5083۔
[2] المحلی لابن حزم: 220/4۔
[3] المغنی : 36/2۔