کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 286
حجاج کرام اور مُعتمرین حضرات کا معاملہ یہ مسئلہ حج اور عمرہ کرنے کے لیے جانے والوں کو شاید عجیب سا لگے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے دل یہ مسئلہ ماننے کے لیے تیار نہ ہوں ۔ لیکن یہ شرعی مسئلہ ہے کسی کے ماننے یا نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، شریعت کا حکم نہ ہماری خواہشات کے تابع ہے اور نہ اسے خواہشات کے مطابق بنانا ہی چاہیے۔ تاہم حجاج و معتمرین کا معاملہ ان لوگوں سے مختلف ہو سکتا ہے جو مدینہ و مکہ کے مستقل رہنے والے ہیں ۔ مستقل رہنے والوں کے لیے تو وہی مسئلہ ہے جس کی وضاحت حدیث کی روشنی میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اور شیخ نور پوری حفظہ اللہ کے فتووں میں گزری۔ لیکن چند دنوں کے لیے جانے والے حاجیوں اور عمرہ کرنے والوں کو شاید اللہ تعالیٰ حج اور نفل دونوں ہی قسم کی نمازوں پر وہ خصوصی فضیلت عطا فرما دے جو مسجد نبوی اور مسجد حرام میں پڑھی گئی نماز کی بابت احادیث میں وارد ہے۔ اسی طرح عورتوں کو بھی یہ خصوصی اجر عطا فرما دے۔ ایک تو اس لیے کہ یہ آفاقی لوگ اپنے دلوں میں حرمَیْن شریفَیْن کی بے پناہ محبت کا جذبہ لے کر وہاں جاتے ہیں ۔ دوسرے، بالعموم نہایت تنگ مکانوں اور جگہوں پر گزارا کرتے ہیں جہاں اکثر لوگوں (مردوں اور عورتوں ) کے لیے نوافل اور قیام اللیل کی ادائیگی ممکن ہی نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کو ان کی محبت اور مجبوری دونوں کا علم ہے، اس لیے اس کے بے پناہ فضل و کرم سے امید ہے کہ وہ حج و عمرہ کرنے والوں کو ان کی محبت اور مجبوری کے پیش نظر خصوصی اجرو ثواب سے محروم نہیں رکھے گا۔ وماذلک علی اللّٰہ بعزیز۔ واللّٰہ ذوالفضل العظیم۔ یہ راقم کی ذاتی رائے ہے، علمائے کرام اور مُفتیانِ عظام کو اس کی بابت بھی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے۔ عورت، عورتوں کی امامت کراسکتی ہے عورت، مردوں کی امامت میں نماز پڑھ سکتی ہے جیسا کہ پہلے تفصیل گزری۔ لیکن مرد