کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 283
یعنی ’’میری اس مسجد(مسجد نبوی) میں نماز ادا کرنا دیگر مساجد میں ایک ہزار نماز ادا کرنے سے افضل ہے سوائے مسجد حرام کے۔‘‘
اسی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ اگر ظہر کی اذان ہو جائے اور تم گھر میں ہو اور مکے میں مقیم ہو اور تمہارا ارادہ ہو کہ ظہر کی نماز مسجد حرام میں ادا کرو تو تمہارے لیے افضل ہے کہ سنت راتبہ (مؤکدہ) اپنے گھر میں ادا کرو، پھر مسجد حرام میں آؤ اور اس میں تحیۃ المسجد ادا کرو، چنانچہ بعض علماء کا یہی خیال ہے کہ تینوں مساجد (مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ) میں نماز کے ثواب کی کثرت فرض نمازوں کے ساتھ مخصوص ہے کیونکہ فرض نمازیں ہی ان مساجد میں ادا کی جاتی ہیں ۔ رہے نوافل تو ان میں یہ مضاعفتِ ثواب (اجر کی زیادتی) نہیں ہے۔
لیکن صحیح یہ ہے کہ فضیلت عام ہے اور فرض نماز کے ساتھ نفل نماز کو بھی شامل ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسجد حرام یا مسجد نبوی یا مسجد اقصیٰ میں ادا کی جانے والی نفل نماز گھر میں ادا کرنے کے مقابلے میں افضل ہے بلکہ اس کا گھر میں ادا کرنا ہی افضل ہے لیکن اگر آدمی مسجد حرام میں داخل ہوا اور یہاں تحیۃ المسجد ادا کرے تو یہ دوسری مساجد میں ایک لاکھ تحیۃ المسجد ادا کرنے سے افضل ہو گی اور مسجد نبوی میں تحیۃ المسجد ادا کرنا دیگر مساجد میں اس کے ایک ہزار ادا کرنے سے افضل ہو گی سوائے مسجد حرام کے۔ اسی طرح اگر تم مسجد حرام آؤ اور اس میں داخل ہو اور تحیۃ المسجد ادا کرنے کے بعد دیکھو کہ اگر ابھی فرض نماز کی اقامت کا وقت نہیں ہوا ہے اور اس میں رہ کر نوافل پڑھو تو یہ نفل نمازیں بھی ایک لاکھ نماز سے افضل ہوں گی اور اسی پر بقیہ کو قیاس کر لو۔
اسی طرح یہ سوال کہ صلاۃ القیام (نمازِ تہجد) مسجد حرام میں افضل ہے یا گھر میں ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ عورت کی فرض نماز اس کے گھر میں بمقابلہ مسجد حرام اور دیگر مساجد افضل ہے۔ رہا قیام رمضان تو بعض اہل علم کہتے ہیں کہ عورتوں کے لیے قیام (تراویح و