کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 281
((اُخْبِرُکَ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَتَقُولُ وَاللّٰہِ لَنَمْنَعُھُنَّ))
’’میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے آگاہ کر رہا ہوں اور تو (ان کے مقابلے میں ) کہہ رہا ہے کہ اللہ کی قسم ہم تو ان کو روکیں گے۔‘‘[1]
اور مسند احمد (36/2) میں بسند صحیح ہے:
((فَمَا کَلَّمَہُ عَبْدُ اللّٰہِ حَتّٰی مَاتَ))
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے اس بیٹے سے عمر بھر کلام نہیں کیا حتی کہ فوت ہوگئے۔‘‘[2]
اس تفصیل سے واضح ہے کہ عورت جس طرح پردے کی پابندی کے ساتھ ضروری کاموں کے لیے گھر سے باہر جاسکتی ہے، اسی طرح اس کا مسجد میں جانا بھی جائز ہے اور اس کو صرف مسجد میں جانے سے روکنا فرمانِ رسول کے صریح خلاف ہے۔ جب بازاروں اور رشتے داروں میں اس کا جانا جائز ہے تو مسجد میں جانا کیوں کر ناجائز ہو جائے گا؟
عورتوں کا گھروں میں نماز پڑھنا افضل ہے
اس اجازت کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ عورتوں کا گھروں میں نماز پڑھنا مساجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَا تَمْتَعُوْا نِسَائَ کُمُ الْمَسَاجِدَ وَ بُیُوتُھُنَّ خَیْرٌ لَھُنَّ))
’’تم اپنی عورتوں کو مسجدوں میں جانے سے مت روکو اور ان کے گھر ان کے لیے زیادہ
[1] صحیح مسلم، الصلاۃ، باب خروج النساء الی المساجد…، حدیث: 442۔
[2] بحوالہ مشکوۃ للالبانی، الصلاۃ، باب الجماعۃ وفضلھا، حدیث: 1084۔