کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 275
النبی کا عقیدہ بھی ، اس مفہوم کے ساتھ کہ وہ دنیوی زندگی ہی کی طرح یا اس سے بھی قوی تر ہے، قرآن وحدیث کی تعلیمات کے یکسر خلاف ہے۔ اسی طرح زیر بحث قسم کی حدیثوں کا محض اس لیے انکار کہ اہل باطل اور اہل بدعت ان سے غلط استدلال کرتے ہیں ، غیر معقول رویہ ہے۔ غلط استدلال کرنے والے تو قرآن کریم سے بھی غلط استدلال کررہے ہیں حتی کہ فوت شدگان سے مدد مانگنے والے اپنا یہ شرکیہ عقیدہ (نعوذ باللہ، ثم نعوذ باللہ) قرآن کریم کی آیات سے ثابت کررہے ہیں ۔ ﴿كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ ۚ إِن يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا ﴾[1] تو کیا قرآن کریم سے ان آیات کو ہی نکال دیا جانا چاہیے؟ نہیں ، یقینا نہیں بلکہ اہل باطل کے استدلال کی کجی اور بُطلان کو واضح کیا جائے گا، جیسا کہ اہل حق ہر دور میں یہ فریضہ ادا کرتے آئے ہیں اور آج بھی الحمد للہ کررہے ہیں ۔ اَیَّدَہُمُ اللّٰہُ بِنَصْرِہِ الْعَزِیز۔ کثرت سے سلام کہنے کی تلقین 1. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’تم جنت میں داخل نہیں ہوگے جب تک کہ تم مؤمن نہیں ہوگے اور تم مومن نہیں ہوگے جب تک کہ تم باہم محبت نہ کرو گے ۔ کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں جس کے کرنے سے تم ایک دوسرے سے محبت کرو گے ! آپس میں سلام کثرت سے کہو۔ ‘‘[2] 2. حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کا قول ہے: ’’ تین چیزیں ایسی ہیں کہ جو شخص انہیں جمع کرلے گا وہ ایمان کو سمیٹ لے گا ۔‘‘ 1. اپنے آپ سے انصاف کرنا ۔2. لوگوں کو بے دریغ سلام کہنا ۔3. تنگدست ہونے کے باوجود (اللہ کی راہ میں ) خرچ کرنا۔‘‘[3]
[1] الکہف 5:18۔ [2] صحیح مسلم ، الإیمان، باب بیان أنہ لا یدخل الجنۃ إلا المؤمنون…،حدیث: 54۔ [3] صحیح البخاري مع فتح الباری: 112/1 موقوف معلق ۔