کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 274
ایک ضروری وضاحت
یہاں چند باتیں سمجھ لینی ضروری ہیں :
ایک تو یہ کہ دور اور نزدیک، کہیں سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود درود و سلام نہیں سُنتے بلکہ فرشتے ہی آپ کو پہنچاتے ہیں ۔قریب سے سننے والی روایت موضوع ہے۔
دوسری بات یہ کہ جب درود آپ کو پہنچایا جاتا ہے تو آپ اسے کس طرح سنتے اور جواب دیتے ہیں ؟ تو واقعہ یہ ہے کہ یہ معاملہ برزخ کی زندگی سے تعلق رکھتا ہے جس کی کیفیت کا علم کسی کو نہیں دیا گیا، اس زندگی کی بابت جو کچھ ہمیں بتلایا گیا ہے، ہمارے لیے اس پر ایمان رکھنا ضروری ہے، اس پر مزید باتوں کو قیاس نہیں کیا جاسکتا، مثلاً: یہ کہ اللہ تعالیٰ جب اہل قبور کو کوئی بات سنوانا چاہے تو وہ سنواسکتا ہے، جیسے میت کو دفنانے کے بعد جب عزیز و اقارب واپس جاتے ہیں تو وہ ان کے قدموں کی آہٹ سنتا ہے۔ جنگ بدر کے موقعے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قلیب بدر میں پڑی ہوئی کافروں کی لاشوں سے باتیں کیں ، اللہ نے وہ ان کو سنوادیں ۔ قبر مبارک میں فرشتوں کے ذریعے سے پہنچنے والا درود و سلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم سنتے اور جواب دیتے ہیں ۔ یہ ساری چیزیں کیونکہ صحیح احادیث سے ثابت ہیں ، اس لیے ان پر ایمان رکھنا بالکل صحیح ہے۔ لیکن ان باتوں کو بنیاد بناکر یہ عقیدہ رکھنا کہ فوت شدہ حضرات ہر بات سُن سکتے ہیں ، یکسر غلط ہے، اسی عقیدے پر شرک کی بنیاد ہے، اس لیے مطلق سماعِ موتی ٰکا عقیدہ قرآن و حدیث کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
بنابریں برزخ کی زندگی کو دنیوی زندگی جیسا یا اس سے بھی (نعوذ باللہ) قوی تر سمجھنا، جیسا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے، بے بنیادہے۔ برزخ کی زندگی یقینا ہر شخص کو حاصل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ زندگی حاصل ہے اور آپ کو آپ کے مرتبہ و مقام کے مطابق دوسروں کے مقابلے میں اعلیٰ ترین درجے میں حاصل ہے لیکن اس زندگی کا کوئی تعلق دنیوی زندگی سے نہیں ہے، اس زندگی کی اصل حقیقت اللہ ہی کے علم میں ہے، اس لیے سماعِ موتیٰ کی طرح حیات