کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 249
دُہری تکبیر
اللّٰهُ أكبرُ، اللّٰهُ أكبرُ اللّٰهُ ، اللّٰهُ أكبرُ، اللّٰهُ أكبرُ اللّٰهُ
اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ، اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ
اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ، اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ
حَيَّ عَلَی الصَّلاةِ، حَيَّ عَلَی الصَّلاةِ
حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ
قد قامَتِ الصَّلاةُ، قد قامَتِ الصَّلاةُ
اللّٰهُ أكبرُ، اللّٰهُ أكبرُ اللّٰهُ، لَّآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ[1]
تہجد کی اذان : ہمارے ہاں بعض مسجدوں میں فجر کی اذان سے گھنٹہ سو ا گھنٹہ پہلے تہجد کی اذان دی جاتی ہے ، یہ صحیح نہیں ۔ حدیث میں دو اذانوں کا ثبوت تو ملتا ہے لیکن ان میں وقت کا اِتنا فاصلہ نہیں ہوتا تھا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں فجر سے پہلے ، حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان دیتے تھے اور اس کے بعد فجر کی اذان عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ دیتے تھے لیکن ان دونوں اذانوں کے درمیان بالکل تھوڑا وقت ہوتا تھا ، اِتنا جتنا کہ ایک شخص کے اوپر چڑھنے اور دوسرے کے نیچے اُترنے کے درمیان ہوتا ہے۔[2] اور ان میں سے پہلی اذان کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ سونے والا بیدار ہو کر اور تہجد پڑھنے والا تہجد سے فارغ ہو کر مسجد میں جانے کی تیاری کر لے،[3] اس لیے ان دونوں اذانوں میں 20,15منٹ یا زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے سے زیادہ فاصلہ مناسب معلوم نہیں ہوتا ۔واللہ اعلم۔
[1] سنن أبي داود ، الصلاۃ ، باب کیف الأذان ، حدیث:502,501 ، وسنن النسائي، الأذان، الأذان فی السفر، حدیث:634۔
[2] صحیح البخاري ، الصوم ، باب قول النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم : لا یمنعنکم من سحورکم أذان بلال، حدیث: 1919۔
[3] صحیح البخاري ، الأذان ، باب الأذان قبل الفجر، حدیث: 621۔