کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 24
میں نمازیوں کے اندر یہ خوبیاں نظر نہیں آتیں ۔ اور ایک نمازی اور بے نمازی کے اخلاق و کردار اور معاملات میں ۔ سوائے چند افراد کے۔ کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔ یہ سوال بلاشبہ بڑا اہم ہے لیکن اس کی وجہ بھی بالکل واضح ہے اور وہ یہ ہے، جیسا کہ پہلے وضاحت کی گئی اور مزید وضاحت بابِ دوم میں آگے آرہی ہے کہ نمازیوں کی اکثریت نماز کو نہ سنت نبوی کے مطابق پڑھتی ہے اور نہ اس خشوع خضوع کا اہتمام کرتی ہے جو نماز کی قبولیت کے لیے ضروری ہے۔
ہر چیز کا فائدہ اور ثمر اسی وقت حاصل ہوتاہے جب اس کو اولاً اسی طرح اختیار یا استعمال کیا جائے جو اس کا صحیح طریقہ ہے، نیز اس میں اس کے وہ پورے اجزاء بھی موجود ہوں جو اس کی افادیت کے لیے ضروری ہیں ۔ اگر طریق کار غلط ہوگا، تب بھی اس چیز کا مبینہ فائدہ حاصل نہیں ہوگا اور اگر اس میں اس کے اجزاء ہی پورے نہیں ہوں گے، تب بھی وہ غیر مؤثر ہی ہوگی اور اس کے فوائد و ثمرات ہمیں حاصل نہیں ہوں گے۔ ثانیاً، پرہیز کیا جائے، یعنی ایسی چیزوں سے اجتناب کیا جائے جو اس دوائی کے اثرات کو زائل کر دینے والی ہوں ۔
ہمارے نمازیوں کا اخلاق و کردار بھی بے نمازیوں کے اخلاق و کردار سے اسی لیے مختلف نہیں کہ ہماری نمازوں کا طریق کار یا طریقِ ادائیگی بھی سنتِ نبوی سے یکسر مختلف ہے اور اس میں وہ اجزاء بھی نہیں ہیں جو خشوع کے باب میں آپ ملاحظہ فرمائیں گے۔ ورنہ قرآن کی بیان کردہ حقیقت مسلمہ اور ہر قسم کے شک و شبہے سے بالا ہے۔ آج بھی جو لوگ صحیح طریقے سے نماز ادا کرتے اور خشوع خضوع کا اہتمام کرتے ہیں ، وہ اخلاق و کردار میں بھی معاشرے کے دوسرے لوگوں سے ممتاز ہیں اور ان کے گھر بھی بالعموم ٹیلیویژن وغیرہ خرافات سے، جو فحشاء اور منکرات کا منبع ہیں ، پاک ہیں ۔ یا جو سنت کے مطابق نماز ادا کرنے کا عزم اور اہتمام کرلیتے ہیں ، وہ بھی آہستہ آہستہ صحیح راستے پر آجاتے اور برائیوں سے تائب ہوجاتے ہیں ۔
جیسے حدیث میں ایک واقعہ آتا ہے: