کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 239
’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں او ر متوجہ کرتا(سفارشی بناتا) ہوں تیری طرف تیرے نبی، نبیٔ رحمت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) میں متوجہ کرتا (سفارشی بناتا) ہوں آپ کو اپنے رب کی طرف اپنی حاجت میں تاکہ وہ پوری کردی جائے، اے اللہ! پس تو آپ کی شفاعت (دعا) کو میرے حق میں قبول فرما۔‘‘[1]
اس حدیث سے، جو اکثر کے نزدیک سنداً صحیح ہے، دو رکعت پڑھ کر اپنی حاجت کے لیے اللہ سے دعا کرنے کا اثبات ہوتا ہے۔
اس حدیث سے اہل باطل اپنے بدعی وسیلے کے لیے استدلال کرتے ہیں حالانکہ اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے، بدعی وسیلہ تو یہ ہے کہ گھر بیٹھے ہی یا قبر پر حاضر ہوکر فوت شدہ شخص کے وسیلے سے دعا کرے۔ یہ قطعاً جائز نہیں ہے۔ اس حدیث میں تو صراحت ہے کہ وہ نابینا شخص چل کر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوا اور آکر دعا کی درخواست کی۔ اور زندہ شخص سے دعا کی درخواست کرنا بالکل جائز ہے۔ دوسرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جو دعائیہ الفاظ سکھائے، اس میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس کے حق میں دعا کو بطور وسیلہ پیش کیا گیا ہے، اسی لیے اس کو شفاعت سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی آپ کی دعا کو شفاعت قرارد ے کر اللہ سے اس کی قبولیت کی التجا کی گئی ہے اور دعا کا یہ طریقہ بھی، جسے وسیلہ کہہ لیا جائے یا شفاعت، جائز ہے کیونکہ یہ بھی زندہ شخص کا وسیلہ ہے ، جو جائز ہے نہ کہ فوت شدہ شخص کا وسیلہ، جو ناجائز ہے۔ بہر حال اس سے صلاۃ حاجت کا اثبات ہوتا ہے۔
جو لوگ صلاۃ حاجت کا انکار کرتے ہیں ، اس سے ان کا مقصد اس حدیث کا ابطال ہے جو صلاۃ الحاجۃ ہی کے نام سے ایک مخصوص دعا کے ساتھ ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ دو رکعت پڑھ کر حسب ذیل دعا پڑھی جائے:
[1] سنن ابن ماجہ، ابواب اقامۃ الصلاۃ…، باب ما جاء فی صلاۃ الحاجۃ، حدیث: 1385۔