کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 232
ممکن نہ ہو تو چاشت کی دو رکعت تم سے کفایت کر جائیں گی ۔‘‘[1] ایک دوسری روایت میں ہے کہ ’’ہر تسبیح (سبحانَ اللَّهِ کہنا )،ہرتحمید (الْحَمْدُ لِلَّهِکہنا)، ہر تہلیل (لا إلهَ إلا اللّٰهُکہنا ) اور ہر تکبیر (اللّٰهُ أكبَرُکہنا) صدقہ ہے اور (اسی طرح) امر بالمعروف اور نہی عن المنکرصدقہ ہے اور چاشت کی دو رکعت بھی اس سے کفایت کر جائیں گی ۔‘‘ [2] ان دونوں حدیثوں میں ضُحٰی کی دو رکعت کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ جس کا ترجمہ چاشت کی نماز کیا جاتا ہے ۔ اس نماز کی بابت دوسری حدیث میں آتا ہے ۔ ((صَلٰوۃُ الْاَوَّابِیْنَ حِیْنَ تَرْمَضُ الْفِصَالُ)) ’’اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں کی نماز ، اس وقت ہے جب اونٹنی کے بچوں کے کھر گرمی کی شدت سے تپنے لگیں ۔‘‘ [3] اس سے استدلال کرتے ہوئے اکثر علماء نے کہا ہے کہ یہ نماز اس وقت ہے جب سورج خوب چڑھ آئے اور گرمی کی شدت محسوس ہونے لگے ۔ عام طور پر اسی کو نمازِ اشراق بھی کہا جاتا ہے جو سورج کے نکلتے ہی 10,5منٹ کے وقفے کے بعد پڑھ لی جاتی ہے۔ جس کی فضیلت میں یہ حدیث آتی ہے کہ جو شخص فجر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھ کر ، بیٹھا ہوا اللہ کا ذکر کرتا رہا ، حتی کہ سورج طلوع ہو گیا، پھر اس نے دو رکعت نماز پڑھی تو اسے پورے حج اور عمرے کا ثواب ملے گا ۔ [4]شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو شواہد کی بنا پر حسن کہا ہے ، جو محدثین کے نزدیک قابل حجت ہے ۔ بہر حال دونوں وقتوں میں سے کسی بھی ایک وقت میں اسے پڑھا جا سکتا ہے ۔ اور صحیح حدیث کی رُو سے یہی صلاۃ الاوابین ہے نہ کہ مغرب
[1] سنن أبي داود ، الأدب ، باب إماطۃ الأذٰی عن الطریق ، حدیث: 5242۔ [2] صحیح مسلم ، صلاۃ المسافرین ، باب استحباب صلاۃ الضحٰی …، حدیث: 720۔ [3] صحیح مسلم ، صلاۃ المسافرین ، باب صلاۃ الأوابین حین ترمض الفصال، حدیث: 748۔ [4] جامع الترمذي، الجمعۃ، باب ذکر مما یستحب من الجلوس فی المسجد…، حدیث:586۔