کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 231
کے ساتھ گیارہ رکعت پڑھایا کریں ۔ [1]اس لیے کہ یہی طریقۂ نبوی تھا ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اپنے اپنے طور پر لوگ مختلف تعداد کے ساتھ قیام کرتے تھے ، کوئی 16، کوئی 20، کوئی 36اور کوئی چالیس رکعات پڑھتا تھا۔ حضرت عمر نے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کے مطابق ، آسانی کے لیے رات کے پہلے حصے میں مسنون عدد کے ساتھ اس کے باجماعت کرانے کا انتظام فرما دیا ، جو اب تک امت میں معمول بہ ہے ۔ 20رکعت کا کوئی ثبوت صحیح سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے نہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ۔ دونوں سے صحیح طور پر جو ثابت ہے ، وہ وتر سمیت 11رکعات ہی ہیں ۔[2] اشراق یا چاشت کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:’’ انسان کے اندر تین سو ساٹھ جوڑ ہیں ، اس کی ذمے داری ہے کہ وہ ہر جوڑ کے عوض ایک صدقہ (نیکی) کرے ‘‘(یعنی روزانہ تین سو ساٹھ نیکیاں کرے ۔) صحابۂ کرام نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! یہ کس کی طاقت میں ہے ؟ توآپ نے فرمایا: ’’مسجد میں کسی کے تھوک کو صاف کر دینا ، راستے سے کسی چیز کا ہٹا دینا ،(بھی نیکی ہے ، یعنی اس قسم کے کام کرکے دن میں ان جوڑوں کا شکر ادا کیا جا سکتا ہے اور کیا جانا چاہیے) اگر یہ بھی
[1] موطأ إمام مالک ، الصلاۃ فی رمضان ، باب ماجاء فی قیام رمضان: 115/1۔ [2] تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ہمارا رسالہ ’’ رمضان المبارک کے احکام و مسائل ‘‘ مطبوعہ دارالسلام ۔