کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 230
چاہے تو تعداد میں اضافہ کرنے کی بجائے ، قیام اور رکوع و سجود وغیرہ ارکانِ نماز کو لمبا کر لے ، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا ۔ ٭ تاہم کوئی 8رکعات سے کم پڑھنا چاہے تو وہ کم بھی پڑھ سکتا ہے ۔ ٭ مستقل تہجد گزار سے کسی وقت تہجد کی نماز رہ جائے تو وہ اگر صرف وتر پڑھنا چاہے تو نماز فجر سے پہلے یا نماز فجر کے بعد وتر پڑھ لے اور اگر تہجد کی قضا ادا کرنا چاہتا ہے تو سورج نکلنے کے بعد 12رکعات پڑھے، تاہم اگر وہ قضا نہیں دے گا تو گناہ گار نہیں ہوگا ۔ قیامِ رمضان، یعنی نماز تراویح پہلے بتایا جا چکا ہے کہ تراویح بھی دراصل تہجد ہی کی نماز ہے جسے حدیث میں قیام اللیل سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس کی فضیلت میں کہا گیا ہے : ((مَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَلَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ)) ’’ جس نے رمضان ( میں رات) کو قیام کیا ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔‘‘ [1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ تین راتوں (23، 25، 27 ویں )کو صحابہ کے ساتھ باجماعت قیام کیا اور چوتھی رات کو لوگ منتظر رہے لیکن آپ تشریف نہیں لائے ۔ بعد میں آپ نے بتایا کہ مجھے تمہارے ذوق و شوق اور انتظار کا پتہ تھا لیکن میں اس لیے نہیں آیا کہ کہیں تم پر یہ قیام فرض نہ کر دیا جائے ، اگر ایسا ہو گیا تو تم اس پر عمل نہیں کر سکو گے ۔ اس لیے تم رمضان کا یہ قیام اپنے اپنے گھروں میں کیا کرو ۔ ‘‘[2] اس کے بعد یہ قیام اپنے اپنے گھروں میں انفراد ی طور پر ہوتا رہا حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں حضرات اُبیَّ بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو جماعت
[1] صحیح البخاري، صلاۃ التراویح، باب فضل من قام رمضان ، حدیث: 2008، وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین ، باب الترغیب فی قیام رمضان …،حدیث: 759۔ [2] صحیح البخاري ، الأدب ، باب مایجوزمن الغضب…،حدیث:7290,6113، وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین ، باب استحباب صلاۃ النافلۃ فی بیتہ …، حدیث: 781، وسنن أبی داود ، باب فی قیام شہر رمضان ، حدیث: 1375، وجامع الترمذي ، الصوم ، باب ماجاء فی قیام شہر رمضان ، حدیث: 806۔