کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 229
میں اور کبھی آخری وقت میں پڑھی ہے ۔ تاہم آپ کا زیادہ معمول آخری وقت ہی میں پڑھنے کا رہا ہے۔اور یہ تہجد کا افضل وقت بھی ہے۔ نمازِ تہجد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام ، رکوع ، قومہ اور سجدہ ہر رکن لمبا ہو تا تھا ، گویا نہایت خشوع خضوع سے یہ نماز ادا فرماتے ، بعض دفعہ آپ کے پیر سوج جاتے ۔ اس خشوع اور اطمینان کا اہتمام نہایت ضروری ہے ۔ ٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول ، رمضان ہو یا غیر رمضان ، گیارہ رکعت کا تھا ، یعنی آپ دو دو کرکے آٹھ رکعت تہجد اور تین وتر یا دس رکعات اور ایک وتر پڑھتے ۔ بعض دفعہ وتر کے بعد دو مختصر رکعتیں مزید پڑھتے اور یوں کبھی 13رکعتیں ہو جاتیں ۔اور تحیۃ الوضو سمیت 15 ہوجاتیں ۔ ٭ جو شخص قیام اللیل کا عادی یا اس کی نیت رکھنے والا ہو تو اُسے چاہیے کہ وہ عشاء کی نماز کے ساتھ وتر نہ پڑھے ، وتر تہجد کی نماز پڑھنے کے بعد آخر میں پڑھے، اس لیے کہ وتر کو رات کی آخری نماز بنانا مستحب ہے ۔ تاہم وتروں کے بعد دو رکعت پڑھنا جائز ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے یہ ثابت ہیں ۔ نیز آپ کے فرمان سے بھی ان کی فضیلت ثابت ہے۔ وتروں کے بعد یہ دو رکعتیں گویا وتر ہی کا تتمہ ہیں ، اس لیے یہ حدیث ((اجعلو آخر صلاتکم باللیل وترا)) کے منافی نہیں ہیں ۔ ٭ جس شخص نے وتر پڑھ لیے ہوں اور پھر اُسے تہجد پڑھنے کا موقعہ مل جائے تو وہ تہجد کے نوافل پڑھ لے ، اسے وتر توڑنے یا وتر دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ٭ بہتر ہے کہ تہجد کی 8رکعات ہی پڑھی جائیں ۔ اگر بندہ عبادت میں زیادہ وقت صرف کرنا