کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 228
گناہوں سے باز رہنے کا سبب اور ذریعہ ہے ۔‘‘ [1]
اس کی وجہ یہ ہے کہ رات کے آخری تہائی حصے میں ، جو تہجد کا خاص وقت ہے ، اللہ تبارک و تعالیٰ آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور کہتا ہے :
(( مَنْ یَّدْعُوْنِیْ فَاَسْتَجِیْبَ لَہُ مَنْ یَّسْأَلُنِیْ فَاُعْطِیَہُ؟ مَنْ یَّسْتَغْفِرُنِیْ فَاَغْفِرَلَہُ))
’’کون ہے جو مجھے پکارے ، میں اس کی پکار کو قبول کروں ؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے تو میں اس کو دوں ؟ کون ہے جو مجھ سے معافی مانگے تو میں اسے معاف کر دوں ؟‘‘ [2]
اس اعتبار سے رات کا یہ آخری حصہ اللہ سے دعا و مناجات کا، توبہ و استغفار کا اور اس کی عبادت کرکے اس کو راضی کرنے کا خاص وقت اور خاص طریقہ ہے ۔اللہ تعالیٰ نے متقین کی ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی ہے: ﴿ وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ﴾ ’’سحری کے وقت وہ استغفار کرتے ہیں۔‘‘(الذاریات 18/51) اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس عبادت کی خصوصی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین!
اسے قیام اللیل بھی کہاجاتا ہے اور تہجد بھی اوررمضان المبارک میں اس کو تراویح کہا جاتا ہے۔
مذکورہ تفصیل سے واضح ہے کہ اس قیام اللیل کا اصل وقت تو رات کا وہ آخری تیسرا حصہ ہے ، جب پہلے دو حصے گزر جائیں ، تاہم اس کا آغاز عشاء کی نماز کے بعد ہی سے ہو جاتا ہے، یعنی اگر کوئی شخص عشاء کے بعد تہجد کی نماز پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے ۔ اسی طرح نصف رات میں پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے اور دوحصے گزر جانے کے بعد رات کے تیسرے حصے میں پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز کبھی ابتدائی وقت میں ، کبھی درمیانی وقت
[1] جامع الترمذي ، الدعوات ، باب من فتح لہ منکم باب الدعاء…حدیث: 3549۔
[2] صحیح البخاري، التہجد، باب الدعاء والصلاۃ من آخر اللیل، حدیث: 1145، وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین ، باب الترغیب فی الدعاء والذکر …حدیث: 758۔