کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 227
اہلحدیث کے مابین اختلاف ہے۔ ایک گروہ اس کا قائل ہے اور بعض کے نزدیک اس کی بابت کوئی صریح مرفوع روایت نہیں ہے، صرف بعض صحابہ کے آثار ہیں ، مجوزین کی بنیاد وہی آثار ہیں ۔ بہرحال اس میں تشدد مناسب نہیں ، دونوں میں سے کسی بھی ایک رائے پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ ٭ نمازِ عید اگر رہ جائے تو اپنے طور پر یا کچھ افراد مل کر تکبیراتِ زوائد سمیت ادا کرلیں ۔ جو عورتیں عیدگاہ میں نہ جاسکیں ، وہ بھی گھر میں دوگانہ ادا کریں ، امام بخاری کا رجحان یہی ہے۔ نیز حضرت انس رضی اللہ عنہ ایسی صورت میں اپنے گھر میں اپنے اہل خانہ سمیت عید کا دوگانہ ادا فرمالیا کرتے تھے۔[1] ٭ پہلی رکعت میں سورۂ قٓ یا سورئہ اعلیٰ اور دوسری رکعت میں سورئہ قمر یا سورئہ غاشیہ پڑھی جائے۔ نماز تہجد کا بیان رات کے پچھلے پہر نرم و گداز بستر چھوڑ کر اُٹھنا اور اللہ کی عبادت کرنا ، قیام اللیل یا تہجد کہلاتا ہے ۔ یہ فرض تو نہیں ہے ، ایک نفلی عبادت ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا بھی خصوصی اہتمام فرماتے تھے اور پابندی سے رات کا کچھ حصہ اللہ کی عبادت کرتے ہوئے گزارتے ۔ علاوہ ازیں اپنی امت کو بھی آپ نے اس کی ترغیب دی ، فرمایا: ((عَلَیْکُمْ بِقِیَامِ الَّیْلِ فَاِنَّہُ دَأْبُ الصَّالِحِیْنَ قَبْلَکُمْ، وَھُوَ قُرْبَۃٌ اِلٰی رَبِّکُمْ وَمَکْفَرَۃٌ لِّلسَّیِّئَاتِ وَمَنْھَاۃٌ لِّلْاِثْمِ)) ’’ تم قیام اللیل کا اہتمام کرو ، اس لیے کہ یہ تم سے پہلے گزر جانے والے نیک لوگوں کا طریقہ رہا ہے ، علاوہ ازیں یہ تمہارے رب کے قرب کا ، برائیاں دور کرنے کا اور
[1] صحیح البخاري، العیدین، باب اذا فاتہ العید یصلی رکعتین۔