کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 225
جس کی خوشبو قریب سے گزرنے والے مردوں تک بھی پہنچے ۔ ٭ نماز عید کے لیے جاتے ہوئے راستے میں اور عید گاہ میں بآواز بلند اللہ کی تکبیر و تحمید کرتے رہیں ، جیسے اَللّٰہُ اَکْبَرُ کَبِیْرًا، اَللّٰہُ اَکْبَرُ کَبِیْرًا، اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَ اَجَلُّ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ، وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ یا اَللّٰہُ اَکْبَرُ ، اَاللّٰہُ اَکْبَرُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ کَبِیْرًا۔ ٭ خواتین بھی پست آواز میں تکبیرات پڑھتی ہوئیں عیدگاہ میں جائیں اور عیدگاہ میں بھی پڑھتی رہیں ۔ یہ دونوں تکبیرات سیدناابن عباس اور سلمان رضی اللہ عنہما سے منقول ہیں اور مشہور الفاظِ تکبیر : ’اَللّٰہُ اَکْبَرُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ، لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ‘ یہ دارقطنی کی ایک روایت میں ہیں جو سندًا سخت ضعیف ہے اس لیے انہیں مسنون تکبیر سمجھ کر نہ پڑھا جائے کیونکہ یہ سندًا ثابت نہیں ہیں ، البتہ حضرت عمر اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے یہ منقول ہیں ،[1] گویا یہ الفاظ مرفوعاً ثابت نہیں ، موقوفاً ثابت ہیں ۔ اس لیے ان کا پڑھنا بھی جائز ہے۔ بہتر ہے کہ حضرت ابن عباس اور حضرت سلمان رضی اللہ عنہما سے منقول دو تکبیرات ، جو اس سے قبل مذکور ہیں ، انہیں پڑھا جائے ۔ ٭ یہ بات بھی صحیح سند سے حضرت ابن عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہم ہی سے منقول ہے کہ وہ 9ذوالحجہ کی فجر سے 13ذوالحجہ کی نمازِ عصر تک تکبیرات پڑھتے تھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند سے ثابت نہیں ۔ عمل صحابہ کی وجہ سے اس پر بھی عمل کرنا جائز ہے۔ ٭ بعض صحابہ کا یہ عمل بھی صحیح بخاری وغیرہ میں ہے کہ وہ ذوالحجہ کے پہلے عشرے (10دنوں ) میں ہر وقت تکبیرات پڑھتے تھے اور بالخصوص بازاروں میں جا کر بآواز بلند پڑھتے تاکہ دوسرے لوگ بھی سن کر پڑھیں ۔ اور احادیث میں بھی ان ایامِ عشرہ میں کثرت سے تسبیح و
[1] فتح الباری۔