کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 216
تاہم حالت ِ اقامت میں بغیر کسی عذر شرعی کے دو نمازوں کو اکٹھا پڑھنا کبیرہ گناہ ہے۔[1] جیسا کہ دنیوی اور کاروباری لوگوں کا عام معمول ہے۔ کاروباری مشغولیات اور دیگر دنیوی معاملات ، ایسا عذر نہیں ہیں جنھیں شریعت عذر کے طور پر تسلیم کرلے ، اس لیے ضروری ہے کہ کاروباری اور دنیا کے معاملات میں الجھے ہوئے لوگ ، اس بری عادت کو چھوڑیں اور ہر نماز اپنے وقت میں پڑھیں ۔ مریض بھی جمع کر سکتا ہے : البتہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مسافر پر قیاس کرتے ہوئے مریض کو بھی دو نمازیں جمع کرکے پڑھنے کی اجازت دی ہے ، اس لیے ایسا مریض جس کے لیے زیادہ حرکت ممکن نہ ہو یا نقصان دہ ہو، وہ جمع تقدیم یا جمع تاخیر (حسب ِ حالات) کر سکتا ہے ۔ یہ رائے اس لیے درست معلوم ہوتی ہے کہ مریض اورمعذور شخص کو ہر طرح نماز پڑھنے کی شریعت نے اجازت دی ہے ، وہ بیٹھ کر ، دا ہنی کروٹ پر لیٹے ہوئے یا چِت لیٹ کر یا اشارے ہی سے نماز پڑھ سکتا ہے اور جب ایسا ہے تو وہ دو نمازیں اکٹھی کرکے بھی پڑھ سکتا ہے ۔ علاوہ ازیں مریض یا بوڑھا آدمی کسی ستون وغیرہ کا سہارا بھی لے سکتا ہے ۔ بارش وغیرہ میں دو نمازیں جمع کرنا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعے پر بغیر کسی عذر (خوف ، سفر یا بارش) کے ظہر اور عصر کو،اسی طرح مغرب اور عشاء کو ملا کر پڑھا ہے ، جس کی وجہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ بیان فرمائی ، تاکہ آپ کی امت کو تنگی نہ ہو ۔[2] جس کا مطلب یہ ہے کہ ناگزیر قسم کے حالات میں امت اس پر عمل کر سکتی ہے ۔ لیکن کسی بھی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل بیان نہیں کیا گیا ہے کہ بارش میں آپ نے دو نمازیں جمع کی ہوں ، البتہ بعض صحابہ نے ایسا کیا ہے کہ بارش یا سخت سردی کی وجہ سے دو نمازیں ملا کر پڑھیں ، اس لیے ہر قسم کی بارش
[1] مصنف عبدالرزاق میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ بغیر عذر کے دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھنا کبیرہ گناہوں سے ہے ۔ (536:1)۔ [2] صحیح مسلم ، صلاۃ المسافرین ، باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر،حدیث: 706,705۔