کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 215
اِکٹھی پڑھتے ۔ اسی طرح اگر سورج غروب ہونے کے بعد سفر کا آغاز فرماتے تو مغرب اور عشاء دونوں نمازیں پڑھ لیتے اور اگر سفر کا آغاز سورج غروب ہونے سے پہلے ہو چکا ہوتا تو آپ نمازِ مغرب کے لیے راستے میں نہ ٹھہرتے بلکہ رات کو کہیں ٹھہرتے اور مغرب اور عشاء دونوں نمازیں ملا کر پڑھتے۔[1]
اس سے معلوم ہوا کہ سفر میں دو نمازیں اکٹھی بھی کی جا سکتی ہیں اور ان کو مقدم و مؤخر کرنا بھی جائز ہے، یعنی عصر کو مقدم کرکے ظہر کے وقت نمازِ ظہر کے ساتھ پڑھا جا سکتا ہے ، اس کو جمع تقدیم کہا جاتا ہے اور ظہر کی نماز کو مؤخر کرکے عصر کی نماز کے ساتھ پڑھا جا سکتاہے ، اس کو جمع تاخیر کہا جاتا ہے ، یہ دونوں طریقے صحیح ہیں ۔ جیسی سہولت ہو اس کے مطابق جمع تقدیم یا جمع تاخیر کی جا سکتی ہے ۔ بسوں ، ٹرینوں اور ہوائی جہاز کے سفر میں ان دونوں صورتوں میں سے کوئی سی بھی صورت اختیار کی جا سکتی ہے ۔
ان کے علاوہ ایک جمع صوری ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ظہر کی نماز اس کے بالکل آخری وقت میں اس طرح پڑھی جائے کہ پڑھتے ہی ظہر کا وقت ختم اور عصر کا وقت شروع ہو جائے اور پھر اس کے ساتھ ہی عصر کی نماز اول وقت میں پڑھ لی جائے ۔ یوں دونوں نمازیں اپنے اپنے وقت ہی میں پڑھی جاتی ہیں ، کسی کو مقدم یا مؤخر نہیں کرنا پڑتا ۔ صرف ایک نماز کو آخری وقت میں اور دوسری کو اول وقت میں پڑھا جاتا ہے ، اسی لیے اسے جمع صور ی کہا جاتا ہے ، یعنی صورۃً (دیکھنے میں ) یہ جمع ہیں ، حقیقت میں ہر نماز اپنے وقت میں پڑھی جاتی ہے ۔ اس کے بھی صحیح ہونے میں تو کوئی شک نہیں لیکن عملی طور پر یہ بہت مشکل ہے ۔
[1] سنن أبي داود، أبواب صلاۃ السفر ، باب الجمع بین الصلاتین ، حدیث: 1220، وجامع الترمذي، الجمعۃ، باب فی الجمع بین الصلاتین، حدیث: 552۔