کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 214
’’وہ مدت ، جس کا ذکر حضرت ابن عباس کی حدیث میں ہے (یعنی 19دن )اس سے اس شخص کے لیے استدلال کرنا جائز ہے ، جس نے اقامت کی نیت نہ کی ہو بلکہ وہ متردد ہو ، کہ جب بھی اسے اپنے کام سے فراغت ہوگی ، وہ یہاں سے کوچ کر جائے گا ، ( اس کے لیے 19دن اور اس سے زیادہ تک قصر کرنا جائز ہے ۔)اور وہ مدت، جس کی تفصیل حضرت انس کی حدیث میں ہے ، (یعنی 3دن یا دخول کا دن شامل کرکے 4دن ) اس سے اس شخص کے لیے استدلال کیا جاتا ہے جو (اِتنے دن) اقامت کی نیت کرلے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام حج میں اس مدت میں (مکہ مکرمہ میں ) اقامت کی پختہ نیت کی ہوئی تھی ۔‘‘ [1] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی اِس عبارت سے اس موقف کی تائید ہوتی ہے جو مدتِ سفر کی بابت مذکورہ صفحاتمیں بیان کیا گیا ہے اور اس سے اس موضوع کی متعلقہ حدیثوں کے درمیان تطبیق بھی ہو جاتی ہے ۔ دو نمازیں جمع کرنے کا بیان اللہ تعالیٰ نے وقت مقررہ میں نمازیں ادا کرنا لازم ٹھہرایا ہے، تاہم مجبوری کی بعض صورتوں میں دو نمازوں کو جمع کرنا شرعًا جائز ہے۔ جس کے احکام و مسائل اور صورتیں درج ذیل ہیں : سفر میں دو نمازیں جمع کرنا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوۂ تبوک کے لیے تشریف لے گئے تو راستے میں آپ دو دو نمازیں جمع کرکے پڑھتے رہے ، اس طرح کہ جب زوال کے بعد، یعنی نماز ِ ظہر کے وقت سفر کا آغاز فرماتے تو ظہر کے دو گانے کے ساتھ ، عصر کا دوگانہ بھی ادا فرما لیتے اور اگر ظہر کے وقت سے پہلے سفر شروع فرماتے تو آپ اپنا سفر جاری رکھتے ، نماز ظہر کے لیے پڑاؤ نہ ڈالتے بلکہ عصر کے وقت کہیں قیام فرماتے اور پھر ظہر اور عصر دونوں نمازیں
[1] فتح الباری: 726/2، شرح حدیث:1081۔