کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 213
مدتِ سفر کے تعین کی دلیل : مدتِ سفر کی تعیین پر استدلال آپ کے قیام حجۃ الوداع سے کیا گیا ہے ۔ حجۃ الوداع کے موقعے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ اور اس کے گردو نواح میں دس دن قیام فرمایا ، جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے۔[1] تین دن آپ مکے میں رہے ۔ آپ 4ذوالحجہ کی صبح کو مکہ تشریف لائے اور 8ذوالحجہ کی صبح کو مکے سے نکل گئے اور منٰی و عرفات وغیرہ میں مناسکِ حج ادا کیے ، ہر جگہ قصر کرتے رہے۔ اس طرح دخول اور خروج کے دن کو نکال کر آپ کا مکے میں قیام تین دن رہا، لہٰذا مدّتِ سفر تین دن ہے، اور بعض علماء چار دن کو مدتِ سفر قرار دیتے ہیں ۔ صاحب ِمرعاۃ شیخ الحدیث مولانا عبید اللہ رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ نے چار دن والے مسلک کو راجح قرار دیا ہے ،[2]اس لیے ہمارے خیال میں دونوں ہی موقف صحیح ہیں ، تین دن والا بھی اورچار دن والا بھی کیونکہ اصل میں یہ دونوں ایک ہی ہیں ، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکے میں دخول کا دِن بھی شمار کیا جائے تو چار دن اور نکال کر مدت مراد لی جائے تو تین دن اصل مدت رہ جائے گی، اس لیے ان دونوں میں سے کسی کو بھی اختیار کیا جا سکتا ہے ، دونوں موقفوں کے حق میں 19دن کے موقف کے مقابلے میں ، زیادہ واضح دلائل ہیں ۔ حافظ ابن حجر ، حدیث ابن عباس اور حدیث انس ، دونوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ((فالمدۃ التی فی حدیث ابن عباس یسوغ الاستدلال بھا علی من لم ینو الاقامۃ بل کان مترددًا متی یتھیألہ فراغ حاجتہ، یرحل، والمدۃ التی فی حدیث انس یستدل بھا علی من نوی الاقامۃ، لانہ صلی اللّٰه علیہ وسلم فی ایام الحج کان جازماً بالاقامۃ تلک المدۃ))
[1] صحیح البخاري، تقصیر الصلاۃ، باب ماجاء فی التقصیر…،حدیث: 1081۔ [2] مرعاۃ المفاتیح: 262-260/2، طبع قدیم 1958ء ۔