کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 212
اولاد اپنے والدین کے گھر قصر کرے گی
اولاد بیٹا ہو یا بیٹی، اگر دوسرے شہر میں مقیم ہو اور انہیں والدین کے گھر 23کلومیٹر یا اس سے زیادہ مسافت طے کرکے آنا پڑے تو وہ بھی مسافر متصور ہوگی، یعنی ان کے لیے بھی نماز قصر کرکے پڑھنا بہتر ہوگا، بشرطیکہ ان کی نیت وہاں چار دن سے زیادہ ٹھہرنے کی نہ ہو۔ چار دن سے زیادہ ٹھہرنے کی اگر نیت ہو تو وہ مسافر نہیں ، مقیم کے درجے میں ہوگی اور پہلے روز ہی سے نماز پوری پڑھے گی۔
تردُّو کی صورت میں زیادہ دن قصر کرنے کی رخصت : اگر اس کی نیت تین یا چار دن یا اس سے کم ٹھہرنے کی ہو لیکن پھر کسی وجہ سے اسے ایک یا دو دن مزید ٹھہرنا پڑ جائے تو اس طرح تردُّد کی صورت میں وہ قصر نماز پڑھتا رہے ، چاہے اسے چار دن سے زیادہ وہاں گزر جائیں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انیس دن نماز قصر کرنے کی حقیقت : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت جو آتا ہے کہ آپ نے مکے میں 19دن قیام فرمایا اور نماز قصر کرتے رہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کی بنیاد پر کہا کہ جب ہم 19دن کا سفر کرتے ہیں تو نماز قصر کرتے ہیں اور اس سے زیادہ دن کا سفر کرتے ہیں تو نماز پوری پڑھتے ہیں ۔[1] تو یہ فتح مکہ کے وقت کا واقعہ ہے جبکہ آپ کے قیام کی مدت غیر معلوم تھی اور آپ تردُّد کی حالت میں تھے ، اسی طرح آپ نے تردُّدکی حالت میں تبوک میں 20دن گزارے ، وہاں بھی قصر ہی کرتے رہے ، اس لیے آپ کے مذکورہ قیام سے 19دن کے مدت ِسفر ہونے پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے ۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور بہت سے علماء نے یہ موقف اختیار کیا ہے ۔ آپ کا یہ قیام بغرضِ جہاد تھا جس میں قیام کی مدت غیر معین تھی ۔ آپ نے یہاں 19دن قیام فرمایا ، اگر آپ اس سے بھی زیادہ قیام فرماتے تو قصر ہی فرماتے، اس لیے آپ کے اس قیام سے مدتِ سفر کی تعیین کے لیے استدلال کرنا غیر صحیح ہے ۔
[1] صحیح البخاري، تقصیر الصلاۃ، باب ماجاء فی التقصیر وکم یقیم حتی یقصر ، حدیث: 1080۔