کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 206
آزمائش کا باعث بنا ہوا ہو لیکن امام صاحب کا اخلاص و الحاح ان تمام چیزوں کو نظر انداز کیے رکھتا ہے اور جب تک وہ ساری دعائیں نہیں پڑھ لیتے اور بار بار نہیں پڑھ لیتے بلکہ اور بھی دعائیں نہیں پڑھ لیتے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس موقعے پر پڑھنا ثابت بھی نہیں ہے، وہ مقتدیوں کو فارغ نہیں کرتے۔
اخلاص و الحاح کا یہ انداز یقینا تفریط کے مقابلے میں اِفراط (غلو) پر مبنی ہے۔ بلاشبہ ساری دعائیں بھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جنازے کے موقعے پر ثابت ہیں ، پڑھی جاسکتی ہیں ، ان کا جواز مُسلَّم ہے۔ لیکن اس میں اگر وقت کی نزاکت اور موسم کی شدت کو ملحوظ رکھتے ہوئے، ضروری دعاؤں پر کفایت کرلی جائے، یا تکرار سے اجتناب کرلیا جائے۔ نیز وہ دعائیں قطعاً نہ پڑھی جائیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پڑھیں (مثلاً قرآنی دعا، ربنا اغفرلنا ولا خواننا الذین سبقونا بالایمان … وغیرہ) تو ایسی نماز جنازہ یقینا سنت کے زیادہ قریب ہوگی بہ نسبت اس نمازِ جنازہ کے جس میں مقتدیوں کے جذبات اور تکالیف کو نظر انداز کرکے پڑھی جائے۔
نماز جنازہ میں یقینا اخلاص والحاح کا حکم ہے، اس کا اہتمام نہایت ضروری ہے لیکن دوسری طرف مقتدیوں کا بھی خیال رکھنے کا حکم ہے۔ بیک وقت ان دونوں چیزوں کا اہتمام ہونا چاہیے، یہی اسلام کی تعلیمات کا اعتدال و توازن ہے جس میں اسلام دیگر تمام مذاہب و ادیان میں ممتاز ہے۔ اسلام کے اس حسنِ اعتدال کو کسی وقت بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، یہ علماء کی ذمے داری ہے، بالخصوص علمائے اہلحدیث کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کیونکہ خالص اور ٹھیٹھ اسلام کے وہی نمائندے ہیں ، دیگر علماء کا اپنا اپنا اسلام ہے جو دراصل تقلیدی یا بدعی مذاہب ہیں ، ان پر اسلام کا صرف ٹھپہ لگاہوا ہے، اصل اور بے آمیز اسلام نہیں ۔ یہ اصل اسلام، قرآن و حدیث والا اسلام، صحابۂ کرام والا اسلام صرف اور صرف اہلحدیث کے پاس ہے۔ اہلحدیث کا یہ شرف و امتیاز ایک بہت بڑا اعزاز ہے اور جس کو جتنا بڑا اعزاز اور مقام