کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 205
قَبَضْتَ رُوحَہَا وَ اَنْتَ اَعْلَمُ بِسِرِّہَا وَ عَلَانِیَتِہَا، جِئْنَا شُفَعَائَ (لَہُ) فَاغْفِرْ لَہُ)) ’’اے اللہ! تو اس کا رب ہے ،اور تو نے ہی اسے پیدا کیا اور تو نے ہی اس کو اسلام کی ہدایت سے نوازا، تو نے ہی اس کی جان قبض کی، اور تو ہی اس کی پوشیدہ اور ظاہر تمام باتوں کو جانتا ہے۔ ہم اس کے سفارشی ہیں (اور تجھ سے التجا کرتے ہیں کہ) اس کو بخش دے۔‘‘[1] ملحوظہ: نماز جنازہ میں عام طور پر افراط و تفریط دیکھنے میں آتی ہے۔ حضراتِ احناف تو نماز جنازہ میں نہ سورۂ فاتحہ پڑھتے ہیں ( حالانکہ اس کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی) اور نہ درودِ ابراہیمی، ایک خودساختہ مختصر سا درود پڑھتے ہیں اور جھٹکا نما نماز پڑھاتے ہیں جس میں شاید صرف ایک دعا۔ اللہم اغفر لحینا و مینتا… کے سوا اور کوئی دعا نہیں پڑھتے۔ حالانکہ حکم ہے۔ ((اِذَا صَلَّیْتُمْ عَلَی الْجَنَازَۃِ فَاَخْلِصُوا لَہُ الدُّعَائَ)) ’’جب تم کسی میت کی نماز جنازہ پڑھو تو اس کے لیے اخلاص سے دعا کرو۔‘‘[2] ان کی نماز جنازہ میں اخلاص و الحاح کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔ گویا ان کی طرف سے تفریط کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے۔ ان کے برعکس علمائے اہلحدیث کی نماز جنازہ میں بعض دفعہ افراط کا مظاہرہ ہوتا ہے، وہ اس طرح کہ موسم کتنا بھی شدید ہو، دھوپ کی تمازت سے مقتدیوں کے لیے لمبا قیام سخت
[1] سنن أبي داود، الجنائز، باب الدعاء للمیت، حدیث: 3200۔ حسنہ الشیخ زبیر علی زئی حفظہ اللّٰه ۔ [2] سنن أبي داود، باب الدعاء للمیت، حدیث: 3199۔