کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 20
٭ نماز کی اِسی اہمیت کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا:
((مُرُوْا أَوْلَادَکُمْ بِالصَّلَاۃِ وَھُمْ أَبْنَائُ سَبْعِ سِنِینَ، وَاضْرِبُوْھُمْ عَلَیْھَا وَھُمْ أَبْنَائُ عَشْرِ سِنِینَ وَفَرِّقُوْا بَیْنَھُمْ فِي الْمَضَاجِعِ))
’’اپنے بچوں کو، جب وہ سات سال کے ہو جائیں ، نماز پڑھنے کا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں ، (اور نماز میں سستی کریں ) تو ان کو اِس پر سزا دو اور (اس عمر میں ) ان کے بستر بھی ایک دوسرے سے الگ کر دو۔‘‘[1]
سات یا دس سال کی عمر میں بچہ نابالغ ہوتا ہے اور شرعی احکام کا مکلف نہیں ہوتا۔ اِس کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمر کے بچے کو نماز پڑھنے کی تلقین کرنے اور اس پر اسے سرزنش کرنے کا حکم دیا تو مطلب اس سے یہ ہے کہ ابتدائے شعور ہی سے یہ بات بچے کے ذہن میں نقش ہو جائے کہ نماز اِسلام کا نہایت اہم فریضہ ہے اور اس کے بغیر مسلمانی کا تصور نہیں کیا جا سکتا، نیز اس لیے کہ بلوغت کے بعد، جب اس پر اِسلام کے احکام و فرائض کی پابندی ضروری ہو گی تو وہ نماز میں تساہل یا تغافل نہ کرے بلکہ نماز کی پابندی، کھانے پینیاور سونے جاگنے جیسے معمولات کی طرح، اس کی زندگی کا ایک مستقل معمول ہو۔
اپنے اہل و عیال کو نماز پڑھانے کا حکم
قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرکے فرمایا:
﴿ وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا﴾
’’آپ اپنے گھروالوں کو نماز کا حکم دیں اور خود بھی اس کی پابندی کریں ۔‘‘[2]
[1] سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 495، وجامع الترمذي، حدیث: 407۔
[2] طٰہٰ 132:20۔