کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 185
((اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ فِیْمَنْ ھَدَیْتَ وَعَافِنِیْ فِیْمَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِیْ فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ وَبَارِکْ لِیْ فِیْمآ اَعْطِیْتَ وَقِنِیْ شَرَّمَا قَضَیْتَ فَاِنَّکَ تَقْضِیْ وَلَا یُقْضٰی عَلَیْکَ اِنَّہٗ لَایَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ وَلَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ))
’’اے اللہ! ہدایت دے مجھے اُن لوگوں میں جن کو تو نے ہدایت دی اور عافیت دے مجھے ان لوگوں میں جن کو تو نے عافیت دی اور دوست بنا مجھے اُن لوگوں میں جنھیں تو نے دوست بنایا اور برکت ڈال میر ے لیے ان چیزوں میں جو تو نے دیں ۔ اور بچا مجھے اُس چیز کے شر سے جس کا تو نے فیصلہ کر دیا، اس لیے کہ فیصلہ کرنے والا تو ہی ہے، تیرے خلاف فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ بلاشبہ وہ ذلیل نہیں ہو سکتا جس کو تو دوست بنا لے اور وہ معزز نہیں ہو سکتا جس کا تو دشمن ہو جائے۔ بہت برکتوں والا ہے تو اے ہمارے رب! اور بہت بلند اور رحمتیں نازل کر نبی( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر۔‘‘[1]
[1] سنن أبي داود، أبواب الوتر، باب القنوت فی الوتر، حدیث: 1425، وجامع الترمذي، أبواب الصلاۃ، باب ماجاء فی القنوت فی الوتر، حدیث: 464، وسنن النسائي، قیام اللیل، باب الدعاء فی الوتر، حدیث: 1747، والسنن الکبرٰی للبیہقی، الصلاۃ، باب من قال: یقنت فی الوتر بعد الرکوع، حدیث: 4859، طبع جدید۔ مذکورہ دعائے قنوت مذکورہ الفاظ ہی کے ساتھ ثابت ہے، یعنی سب کتابوں کو مجموعی طور پر سامنے رکھتے ہوئے… وتعالَيتَ تک ہی یہ دعا مذکورہ کتابوں میں موجود ہے۔ نستغفِرُك ونتوبُ إليك کے الفاظ صاحبِ ’’حصن حصین‘‘ اور امام نووی وغیرہ نے نقل کیے ہیں لیکن کسی حدیث کی کتاب میں یہ الفاظ نہیں ملتے۔ بعض نے صراحت بھی کی ہے کہ یہ اضافہ علماء کی طرف سے ہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ دعائے قنوت: نستغفِرُك ونتوبُ إليك کے بغیر پڑھی جائے۔ باقی رہے الفاظوصلّى اللَّهُ على النَّبيِّ تو سنن النسائي میں محمَّدٍ…کے اضافے کے ساتھ موجود ہیں ۔ لیکن حافظ ابن حجر نے اس کی بابت کہا ہے کہ یہ منقطع ہے۔ لیکن چونکہ بہت سے صحابہ سے دعائے قنوت کے آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا ثابت ہے، اس لیے وصلّى اللهُ على النَّبيِّ … کا پڑھنا جائز اور صحیح ہے۔ (التلخیص: 248/1، وصفۃ الصلاۃ، ص: 161، وحاشیۃ صحیح ابن خزیمۃ، حدیث: 1100)۔