کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 184
معمول گیارہ رکعت تہجد کا تھا۔ آپ دو دو رکعت کر کے دس رکعت پڑھتے اور آخر میں ایک رکعت وتر۔ بعض روایات میں اسے اِس طرح بیان کیا گیا ہے کہ آپ آٹھ رکعات پڑھتے اور پھر تین رکعات وتر۔
تا ہم اُمت کی آسانی کے لیے وتروں کو اول وقت، یعنی عشاء کی نماز کے بعد بھی پڑھنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔[1] اس لیے جو شخص قیام اللیل (تہجد) کا عادی ہو، اُس کے لیے تو یہی بہتر ہے کہ وہ عشاء کے بعد وتر نہ پڑھے اور تہجد کے آخر میں وتر پڑھے، تاہم جو لوگ قیام اللیل کے عادی یا اِس کے متحمل نہیں ، وہ عشاء کے بعد پڑھ سکتے ہیں ۔ بلکہ ان کے لیے عشاء کی نماز کے ساتھ ہی پڑھ کر سونے کا حکم ہے۔ ایسے لوگ اگر کسی موقعے پر تہجد کی نماز پڑھنا چاہیں تو پڑھ سکتے ہیں ، انہیں پھر آخر میں وتر پڑھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ پہلے وتر پڑھ چکے
ہیں ، وہی کافی ہیں ، انہیں توڑنے کی ضرورت ہے نہ دوبارہ پڑھنے کی۔نقضِ وتر کا جو طریقہ مشہور ہے کہ ایک رکعت پڑھ کر رات کے پڑھے ہوئے وتر کو جُفت (جوڑا) بنا لیا جائے اور پھر تہجد کے آخر میں وتر دوبارہ پڑھے جائیں ۔ یہ طریقہ بے اصل ہے، پتہ نہیں یہ کس طرح مشہور ہوگیا ہے؟ (تہجد کے مزید مسائل قیام اللیل کے بیان میں دیکھیے)
دعائے قنوت وتر : حضرت حسن رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند کلمات اس مقصد کے لیے سکھائے کہ میں انہیں وتر میں پڑھا کروں :
[1] صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ اللیل مثنٰی مثنٰی، والوتر رکعۃ من آخر اللیل، حدیث:749۔