کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 182
دوسرے، انہیں بیٹھ کر ہی پڑھنا، دونوں باتیں اپنی طرف سے ایجاد کردہ ہیں ، اس لیے یہ رواج تو یکسر غلط اور قابلِ اصلاح ہے، البتہ ظہر اور مغرب کے بعد نوافل پڑھنے کی عام اجازت ہے، جو جتنے چاہے پڑھ لے ان اوقات میں زیادہ نوافل پڑھے جائیں ، نیز کھڑے ہو کر پڑھے جائیں تا کہ ثواب پورا ملے۔ صرف دو رکعت بیٹھ کر پڑھنے سے گریز کریں کیونکہ یہ ایک رواج ہے اور رواج بھی غیر شرعی اور نفل کو واجب قرار دینے والا۔ رکعات عشاء کی تعداد : عشاء کی نماز سے پہلے جو چار رکعتیں بطور سنت پڑھی جاتی ہیں ، یہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ، البتہ اگر جماعت میں کچھ وقت ہو تو مسجد میں آنے والے کے لیے تحیۃ المسجد کا جو عام حکم ہے، اس کے مطابق تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں ضرور پڑھے۔ اس کی بڑی تاکید ہے۔[1] مزید وقت ہو تو دو دو رکعت کر کے نوافل ادا کرے، پھر عشاء کے چار فرض ادا کرنے کے بعد دو سنتیں پڑھے اور اس کے بعد وتر پڑھے۔ وتروں کے بعد اگر دو نفل پڑھنا چاہے تو پڑھ لے، جیسا کہ پہلے تفصیل گزری۔ یہ ہے عشاء کی وہ نماز جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ عشاء کی جو 17 رکعتیں مشہور ہیں اور بہت سے لوگ پڑھتے بھی ہیں ، یہ تعداد کسی بھی حدیث میں نہیں ہے۔ اتنی زیادہ تعداد نے، جو خود ساختہ ہے، لوگوں پر عشاء کی نماز کو بہت بھاری بنا دیا ہے، اس لیے اوّل تو لوگ نماز پڑھتے ہی نہیں ہیں اور جو پڑھتے ہیں ، وہ کوے کی طرح ٹھونگیں مارتے ہیں ، نماز نہیں پڑھتے، اس لیے عشاء کی نماز صرف چار فرض، دو سنتوں اور اس کے بعد وتر پر مشتمل ہے، وتر کے بعد دو رکعت نفل پڑھنا بھی جائز ہے۔
[1] صحیح البخاري، الصلاۃ، باب إذا دخل المسجد فلیرکع رکعتین، حدیث: 444۔