کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 181
اللیل کی طرح ہو جاتا ہے۔‘‘
اس کے بعد شیخ البانی نے لکھا ہے کہ میں وتر کے بعد دو رکعت نفل پڑھنے کے بارے میں مدت تک توقف کا شکار رہا۔ لیکن اِس روایت سے مطلع ہونے کے بعد میں نے اس پر عمل شروع کر دیا اور میں نے یہ جان لیا کہ اجْعَلُوا آخِرَ صَلاتِكُمْ باللَّيْلِ وِتْرًا میں امر تخییر (استحباب) کے لیے ہے، وجوب کے لیے نہیں ۔[1] امام ابن القیم رحمہ اللہ نے بھی زاد المعاد (جلد اول) میں ان دو رکعتوں کے جواز و استحباب کو تسلیم کیا ہے۔
بعض علماء اس بات کے قائل ہیں کہ وتر کے بعد دو نفل بیٹھ کر ہی پڑھے جائیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر ہی پڑھے ہیں ، اس لیے ان کا مسنون طریقہ بیٹھ کر ہی پڑھنا ہے۔ اور بعض علماء نے کہا ہے کہ بیٹھ کر پڑھنے سے ثواب آدھا ملے گا (جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے) اِس لیے کھڑے ہو کر پڑھے جائیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تو بیٹھ کر پڑھنے کی صورت میں بھی ثواب پورا ملتا تھالیکن ہمارے لیے ایسا نہیں ہے۔ [2]ہماری ناقص رائے میں دونوں صورتیں جائز ہیں ۔ اور دونوں ہی صورتوں میں ان شاء اللہ اجر پورا ہی ملے گا کیونکہ بیٹھ کر پڑھنے والوں کی بنیاد بھی عمل رسول ہی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
ہر نماز کے ساتھ نفل ضروری نہیں : ہمارے ہاں رواج ہے کہ عصر اور فجر کے علاوہ باقی تین نمازوں میں دو رکعت نفل بیٹھ کر ضرور پڑھے جاتے ہیں۔ بلاشبہ یہ تینوں موقعے ایسے ہیں کہ ان میں نفل پڑھے جا سکتے ہیں ۔ علاوہ ازیں نفل پڑھنا بھی ایک مستحب (پسندیدہ) عمل ہے لیکن ایک تو دو رکعت نفل کو مذکورہ تینوں نمازوں میں فرض و واجب کی طرح لازمی بنا لینا اور
[1] رسالہ’’قیام رمضان‘‘ للشیخ الألبانی، ص 25۔تفصیل کے لیے دیکھیے: مرعاۃ المفاتیح، شرح مشکاۃ المصابیح، باب الوتر۔
[2] رسالہ ’’تعلیم الصلاۃ‘‘ للشیخ حافظ عبداللّٰه محدث روپڑی رحمہ اللّٰه ، ص 65,64، طبع جدید 1995ء