کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 18
٭ ﴿ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴾ ’’نماز قائم کرو اور مشرکین میں سے نہ ہوجاؤ۔‘‘[1] معلوم ہوا کہ نماز نہ پڑھنا مسلمانوں کا نہیں بلکہ مشرکین کا شیوہ ہے۔ ٭ حدیث میں نماز کو اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رُکن بتلایا گیا ہے، جس سے اِس کی اہمیت واضح ہے۔ (( بُنِیَ الْإِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ، شَہَادَۃِ أَنْ لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رسُولُ اللّٰہِ، وَ اِقَامِ الصَّلَاۃِ وَ اِیتَائِ الزَّکَاۃِ وَ الْحَجِّ وَ صَوْمِ رَمَضَانَ)) ’’اسلام کی پانچ بنیادیں ہیں ، توحید و رسالت کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زکاۃ دینا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘[2] ٭ علاوہ ازیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( بَیْنَ الرَّجُلِ وَ بَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلَاۃِ)) ’’آدمی اور شرک و کفر کے درمیان، نماز کا چھوڑنا ہے۔‘‘[3] یعنی نماز کا پڑھنا، آدمی اور کفر و شرک کے درمیان ایک رکاوٹ ہے، جب ایک شخص نماز چھوڑ دیتا ہے تو گویا اس نے اس رکاوٹ کو دُور کر دیا اور وہ کفر و شرک میں داخل ہو گیا۔ اِس اعتبار سے بے نماز مسلمان، کافر و مشرک شمار ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ((کَانَ اَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلی اللَّہ علیہ وسلم لَا یَرَوْنَ شَیْئًا مِّنَ الْأَعْمَالِ تَرْکُہٗ کُفْرٌ غَیْرَ الصَّلَاۃِ)) ’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سوائے نماز کے کسی بھی عمل کے ترک کو کفر نہیں سمجھتے تھے۔‘‘[4]
[1] الروم 31:30 [2] صحیح البخاري، حدیث: 8۔ [3] صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 82 [4] جامع الترمذي، الإیمان، حدیث: 2622۔