کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 175
نہیں ہے کہ بایاں ہاتھ استعمال ہی نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح تسبیحات کے گننے میں بھی آغاز دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے کیا جائے اور دوسرا ہاتھ بھی استعمال کرلیا جائے تو یہ معمولِ نبوی کے خلاف تو نہیں ہوگا۔ یا زیادہ سے زیادہ صرف دائیں ہاتھ کے استعمال کو بہتر قرار دیا جاسکتاہے۔
مزید برآں حضرت بُسیرہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے:
اَنْ یَّعْقِدْنَ بالانامل
’’انگلیوں پر تسبیحات شمار کریں ۔‘‘
ان میں عموم ہے، دائیں یا بائیں ہاتھ کی تخصیص نہیں ہے، پھر اس کی علت یہ بیان فرمائی گئی ہے:
فانہن مسؤلاتٌ مستنطقات
’’ان سے پوچھا جائے گا اور بلوایا جائے گا۔‘‘
یعنی یہ انگلیاں بول کر بارگاہِ الٰہی میں شہادت دیں گی، تو کیوں نہ ایک ہاتھ کی انگلیوں کے بجائے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو گواہ بنالیا جائے۔ گواہ جتنے زیادہ ہوں گے، گواہی اتنی ہی زیادہ وقیع ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
بہر حال تسبیحات کے گننے میں دونوں ہاتھوں کا استعمال جائز ہے۔ نیز گننے کے لیے گٹھلیوں اور کنکریوں کی طرح تسبیح کا استعمال بھی ایک آلے کے طور پر جائز ہے۔ مولانا عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ نے بھی تسبیح کے استعمال کا جواز تسلیم کیا ہے۔ (تحفۃ الاحوذی، شرح جامع الترمذي، الدعوات، باب ماجاء فی عقد التسبیح بالید: 55/4، و 274، طبع قدیم)