کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 174
ابوداود میں بِیَمِینِہِ کا اضافہ ہے اور ابن حبان میں بیمینہ کی جگہ بِیَدِہِ کے الفاظ ہیں ، یعنی اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے۔ یا اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے (گنا کرتے تھے)۔ اور بیدہ ہی کا لفظ زیادہ محفوظ ہے اور یَدْ سے یَدَیْن (دونوں ہاتھ) مراد ہیں ۔ گننے کے لیے کیا صرف دایاں ہاتھ ہی استعمال کیا جائے؟ بِیَمِینِہِ کے لفظ سے استدلال کیا جاتا ہے کہ تسبیح وتحمید کی گنتی کے لیے صرف دایاں ہاتھ استعمال کیا جائے، بایاں ہاتھ بالکل استعمال نہ کیا جائے۔ لیکن ہمارے خیال میں دائیں ہاتھ کے لفظ سے صرف اسی کو استعمال کے لیے ضروری قرار دینا صحیح معلوم نہیں ہوتا کیونکہ جب یہ بتلایا گیا ہے کہ گننے کے لیے انگلیوں کو استعمال کیا جائے، قیامت کے دن ان کو بولنے کی قوت دی جائے گی اور وہ اس امر کی شہادت دیں گی کہ ان انگلیوں پر یہ بندہ تیری تسبیحات پڑھتا تھا تو کیوں نہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو اس کے لیے استعمال کیا جائے تاکہ دونوں گواہیاں دیں ۔ نیز انگلیوں (اَنَامِل) کا لفظ عام ہے، اس میں دونوں ہاتھوں کی انگلیاں شامل ہوں گی بالخصوص جبکہ مذکورہ حدیثِ عبد اللہ بن عمرو میں بِیَدِہِ ہی کا لفظ محفوظ ہے اور بِیَمِینِہِ کا لفظ غیر محفوظ اور شاذ ہے۔ دیکھیے: (فتاوی ’’الدین الخالص‘‘ مولانا امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ : 223,216/1) علاوہ ازیں حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بیان ہوا ہے کہ آپ دائیں ہاتھ سے تسبیح شمار کرتے تھے تو اس کا مطلب وہی ہے جس کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہمیں ملتی ہے کہ آپ جوتی پہننے میں ، کنگھی اور وضو کرنے میں اور اپنے تمام (اچھے) کاموں میں دائیں جانب کے اختیار کرنے کو پسند فرماتے تھے۔ (صحیح البخاري، الوضوء، باب التیمن فی الوضوء والغسل، حدیث: 168) یعنی آغاز دائیں جانب سے کرتے تھے، یہ مطلب تو