کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 172
تسبیح کی حیثیت اور تسبیحات گننے کا طریقہ تسبیح، تحمید اور تکبیر وغیرہ اوراد کو مقررہ تعداد کے مطابق پڑھنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جائے؟ یہ بھی ایک عام سوال ہے جو اکثر ذہنوں میں اٹھتا رہتا ہے۔ اس کے لیے ایک تو تسبیح کا سہارا لیا جاتا ہے جس کا وجود خیر القرون میں نہیں تھا، یہ اس کے صدیوں بعد کی ایجاد ہے، بعض لوگ اسے ہندو سادھوؤں اور پنڈتوں کی ’’مالا‘‘ کی نقل قرار دیتے ہیں ، اگر یہ صحیح ہے تو اس سے بچنا بہتر ہے لیکن اگریہ صرف گنتی معلوم کرنے کا ایک آلہ اور طریقہ ہے تو اس کے استعمال کو سختی کے ساتھ ممنوع قرار دینا بھی مناسب بات نہیں لگتی ہے۔ اس لیے اس سے قطع نظر کہ اس کا مُوجد کون ہے؟ اس کے استعمال کو یکسر ناجائز اور بدعت قرار دینا محل نظر ہے۔ اگر آسانی کے لیے اس پر تسبیحات گن لی جائیں تو بظاہر کوئی شرعی حرج معلوم نہیں ہوتا کیونکہ اس کو دین کا حکم سمجھ کر کوئی اختیار نہیں کرتا بلکہ ایک آلہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ واللہ اعلم بعض احادیث و آثار میں ’’سبحہ‘‘ کا لفظ ملتا ہے جس سے بعض لوگوں نے تسبیح مراد لی ہے اور اس بنا پر اس کا جواز تسلیم کیا ہے۔ ان میں سے بعض میں کنکریوں کے ذریعے سے گننے کا ذکر ہے۔ لیکن یہ سب احادیث و آثار ضعیف ہیں ، اس لیے ان سے ان کی مسنونیت ثابت نہیں ہوسکتی (تفصیل اور اسنادی حیثیت کے لیے دیکھیے: ’’الاحادیث الضعیفۃ‘‘ للالبانی رحمہ اللہ ، حدیث: 83) لیکن گٹھلیوں اور کنکریوں پر گنتی کرنے کے بعض آثار بعض محققین کے نزدیک صحیح ہیں ، اس لیے ان کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں اور اسی کے ذیل میں تسبیح کو بطور آلہ