کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 158
تیری سفارش کرسکوں )‘‘ [1]
احادیث میں بیان کردہ ان سجدوں کی بابت یہ کہاجاتا ہے کہ ان سے مراد نوافل کی کثرت ہے کہ فرائض کی پابندی کے ساتھ نوافل کا بھی کثرت سے اہتمام کیا جائے۔ یہ مفہوم بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ بعض دفعہ جز بول کر اس سے کُل مراد لے لیا جاتا ہے، اس کو اِطْلَاقُ الجُزْئِ عَلی الْکُلِّ کہا جاتا ہے۔ لیکن اس سے صرف خالی سجدہ بھی مراد لیا جاسکتا ہے اور اس معنی میں بھی کوئی امر مانع نہیں ہے، اس لیے کہ صرف سجدہ بھی ایک عبادت ہے، جیسے سجدۂ شکر ہے، سجدۂ تلاوت ہے۔
پس جیسے کسی نعمت کے ملنے، کسی خوش کن خبر کے سُننے یا کسی مصیبت کے ٹلنے پر سجدۂ شکر کرنا جائز ہے (جس کے دلائل ’’ارواء الغلیل‘‘ 226/2 اور شرح السنۃ، للامام البغوی: 316/3۔ وغیرہ میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں ) اسی طرح دعا کرنے کے لیے بھی نماز کے سجدوں کے علاوہ سجدہ کرنا جائز ہے۔ اس دعائیہ سجدے میں مسنون یا عربی زبان میں دعا کرنے کی پابندی نہیں ہے۔ آپ اپنی زبان میں جتنی چاہیں دعا کریں ۔
علاوہ ازیں جس طرح سجدۂ تلاوت اور سجدۂ شکر میں وضو کی، قبلہ رو وغیرہ ہونے کی شرط نہیں ہے بلکہ صرف استحباب ہے کیونکہ یہ نماز کے سجدے نہیں ہیں بلکہ ذکر الٰہی کے سجدے ہیں اور ذکر کے لیے وضو یا قبلہ رُو ہونا ضروری نہیں ہے۔ اللہ کا ذکر ہر حالت میں کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح دعائیہ سجدے میں بھی مذکورہ شرطیں صرف مستحب ہیں ، ضروری نہیں ہیں ۔ آپ جب چاہیں ، جس وقت چاہیں اور جس حالت میں ہوں ، بارگاہِ الٰہی میں سجدہ ریز ہوکر دعا کرسکتے ہیں ۔ ان مذکورہ سجود کے لیے کوئی وقت بھی مکروہ نہیں ہے، مکروہ اوقات میں بھی ان کا جواز ہے۔
[1] صحیح مسلم، باب مذکور، حدیث: 489۔