کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 147
ایک دلچسپ لطیفہ: ہمارے ملک میں اس مسئلے پر زیادہ زور دینے کا آغاز پیر سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ نے کیا اور اس پر عربی میں ایک کتاب بھی تحریر کی، اس کے جواب میں پیر صاحب کے بڑے بھائی پیر محب اللہ راشدی رحمہ اللہ نے اردو میں کتاب لکھی۔ بڑے پیر صاحب نے اپنی کتاب کا ایک نسخہ راقم کو بھیجا اور لکھا کہ آپ اس کو عربی میں منتقل کردیں کیونکہ سید بدیع الدین شاہ کی کتاب عربی میں کویت سے شائع ہوگئی ہے، میں چاہتا ہوں کہ میری کتاب بھی عربی میں شائع ہوجائے۔ پیر صاحب موصوف رحمہ اللہ راقم کے ساتھ حسن ظن رکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ شاید میں اس کو عربی میں منتقل کرسکوں گا۔ لیکن راقم بھی اکثر علماء کی طرح عربی انشا وتحریر کے سلیقے اور صلاحیت سے محروم ہے، اس لیے معذرت کردی۔
اس واقعے کے بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ سید بدیع الدین شاہ پیر آف جھنڈا رحمہ اللہ کا یہ موقف، جس پر وہ زور دیتے تھے، علمی اعتبار اور دلائل کے اعتبار سے اتنا کمزور تھا کہ ان کے اپنے بڑے بھائی بھی، جو انہی کی طرح ایک بلند پایہ عالم، محقق اور محدث تھے، ان کے موقف کے قائل نہ ہوسکے اور اس موقف کے رد میں کتابیں لکھتے رہے۔
پیر جھنڈا کے موقف کے رد میں بعض اور بھی جلیل القدر علماء نے کتابیں لکھی ہیں ۔ اور نقد کیا ہے، جیسے، مثلاً: مجتہد العصر حافظ عبد اللہ محدث روپڑی، پروفیسر حافظ عبد اللہ بہاول پوری رحمہما اللہ ہیں ، محدث العصر شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے آج کل کے بعض افاضل کا وہم اور خطا قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ میرے علم کی حد تک سلف میں سے کوئی اس کا قائل نہیں رہا ہے۔
(الصحیحۃ: 313-306/5)
ایک اور فاضل جلیل، محقق عظیم اور بلند پایہ عالم و محدث شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ نے بھی اس پر محققانہ نقد فرمایا ہے۔
راقم کے پیش نظر اتفاق سے اس تحریر کے وقت مذکورہ کتابوں میں سے کوئی بھی کتاب نہیں