کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 145
صراحت دوسری روایا ت میں موجود ہے) لیکن رکوع کے بعد کی کیفیت یعنی قومے کو صحابی نے قیام سے تعبیر ہی نہیں کیا۔ محدثین کا فہم وتفقہ محدثین کا فہم دین اور تفقُّہ مسلمہ ہے اور مجموعۂ احادیث کو فقہی ابواب و ترتیب میں مُدون کرنے کا جو مہتم بالشان کام انہوں نے سرانجام دیا، اس سے ان کا ملکۂ اجتہاد و استنباطِ مسائل واضح ہے لیکن کسی محدث نے بھی سنن نسائی میں درج حدیث اور اسی مفہوم کی دیگر کسی حدیث سے رکوع کے بعد قومے میں ہاتھ باندھنے کا اثبات نہیں کیا، حالانکہ وہ ایک ایک حدیث سے (بالخصوص امام بخاری) کئی کئی مسائل کا اثبات وا ستنباط کرتے ہیں ۔ محدثین کے اس طرز عمل و فکر سے بھی واضح ہے کہ کسی بھی حدیث میں وضع الیدین بعد الرکوع کا ذکر نہیں ہے اور حدیث کے کسی لفظ سے بھی اس کا اثبات سوائے تحکم کے کچھ نہیں ۔ ایک سوال کے ذریعے مزید وضاحت محتاجی اور معذوری کی صورت میں بیٹھ کر نماز پڑھنے کی رخصت دی گئی ہے اور جب ایک معذور شخص بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو نماز کا آغاز وہ تکبیر تحریمہ کہہ کر دونوں ہاتھ سینے پر باندھنے ہی سے کرتا ہے۔ گویا تکبیر تحریمہ کے بعد، ہاتھوں کو کانوں کی لویا کندھوں کے برابر تک اٹھا کر ہاتھوں کو سینے پر ہاندھ لینا، یہ نماز کا افتتاحی عمل ہے، چاہے کھڑے ہوکر نماز پڑھی جائے یا بیٹھ کر۔ اگر یہ کہا جائے کہ وضع الیدین (ہاتھوں کا سینے پر باندھنا) کا تعلق قیام سے ہے، جب بھی نماز میں قیام ہوگا، ہاتھوں کا باندھنا بھی ضروری ہوگا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جب قیام نہیں