کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 144
ہے، کسی نے اختصار سے کام لیا ہے تو کسی نے تفصیل سے، کسی سے کوئی چیز بیان کرنے سے رہ گئی یا اختصار کے پیش نظر اس نے اسے بیان نہیں کیا تو دوسرے صحابہ نے اسے بیان کردیا۔ اس طرح مجموعۂ احادیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکا مکمل نقشہ ہمیں مل جاتا ہے۔ لیکن اس نقشے اور تفصیلات میں کسی بھی صحابی نے رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد ہاتھ باندھنے کا ذکر نہیں کیا، یہ بھی اس امر کی واضح دلیل ہے کہ آپ نے وضع (ہاتھ باندھنے) کا اہتمام نہیں کیا، صحابۂ کرام نے رکوع کے بعد کھڑے ہونے کی طوالت کا، اس حالت میں پڑھی گئی دعاؤں کا، رفع الیدین وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ لیکن کسی بھی صحابی نے اس پہلو (وضع) کا ذکر نہیں کیا بلکہ ان کے انداز بیان سے وضع کی نفی ہی ثابت ہوتی ہے۔ جیسے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے جس میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیاتِ نماز کو بیان فرمایا ہے۔ ((کَانَ رُکُوعُ النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَ سُجُودُہُ بَیْنَ السِّجْدَتَیْنْ وَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ، مَا خَلَا الْقِیَامَ وَالْقُعُودَ، قَرِیبًا مِنَ السَّوَائِ)) ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع، سجدہ، دو سجدوں کے درمیان کا وقفہ اور جب آپ رکوع سے سر اٹھاکر ٹھہرتے، یہ تقریباً سب برابر ہوتے تھے سوائے قیام اور قعود کے (یہ ان سے بھی زیادہ لمبے ہوتے)‘‘ [1] اس میں نماز کی مذکورہ کیفیتوں کی تفصیل ہے، اس میں رکوع کے بعد اطیمنان سے ٹھہرے رہنے کا بھی ذکر ہے لیکن اس میں ہاتھ باندھنے کاذکر نہیں ہے، علاوہ ازیں قیام اور قعود کا ذکر الگ ہے، یعنی نماز کے آغاز اور افتتاح کو قیام سے تعبیر کیا ہے اور اس کا مزید طویل ہونا بیان کیا ہے۔ اس میں قیام کا مطلق ذکر ہے، یعنی اس کو پہلا قیام اور رکوع کے بعدٹھہرنے کو دوسرا قیام قرار نہیں دیا۔ گویا ان کے نزدیک نماز کا آغاز قیام تھا (جس میں ہاتھ باندھنے کی
[1] صحیح البخاري، الاذان، بابٗ وحدُّ اتمام الرکوع والاعتدال فیہ والاطمینانینۃ، حدیث:762۔