کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 143
ہوئی ہیں ، ان میں رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد ہاتھوں کی کسی کیفیت کا بیان نہیں ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر (قومے میں ) قیامِ اول کی طرح ہاتھ باندھے ہوتے تو یقینا وہ بھی نماز کی ایک کیفیت ہوتی اور اسے راویٔ حدیث (صحابیٔ رسول) ضرور بیان کرتے۔ محلِّ بیان میں اس کو بیان نہ کرنا اس امر کی واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عمل نہیں کیا۔ وضع کی عدم صراحت، ارسال کی دلیل ہے بعض علماء کہتے ہیں کہ باندھنے کا ذکر نہیں ہے تو ارسال (ہاتھ چھوڑنے) کا بھی تو ذکر نہیں ہے، اس لیے دونوں موقف برابر ہیں ، کسی کے پاس بھی واضح دلیل نہیں ہے۔ لیکن ہم عرض کریں گے کہ یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ دونوں موقف (وضع اور ارسال) برابر نہیں ہیں بلکہ حدیث کا سیاق ارسال الیدین ہی کو واضح کررہا ہے اور اس میں وضع کا قطعاً کوئی احتمال نہیں ہے، اس لیے وضع (ہاتھ باندھنے) کا موقف یکسر بے دلیل ہے۔ علاوہ ازیں وضع (ہاتھوں کا باندھنا) ایک عمل ہے اور صحابی نے ہاتھوں کے عمل کو، جہاں جس طرح ہوا، وہ بیان کردیا، اگر یہ عملِ (وضع) رکوع کے بعد بھی ہوا ہوتا تو صحابی اسے بھی ضرور بیان کرتا۔ اس کے برعکس ارسال (ہاتھوں کا چھوڑنا) اصل ہے، رکوع سے اٹھ کر آپ نے ہاتھوں کا کوئی عمل سرانجام نہیں دیا تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ آپ نے اپنے ہاتھوں کو اصل حالت ہی میں چھوڑے رکھا، ان کو سینے پر نہیں باندھا۔ صحابۂ کرام کا فہم صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی ایک ایک کیفیت کو بڑی وضاحت سے بیان فرمایا