کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 140
یہ سنن نسائی کی روایت ہے جس سے ہاتھ باندھنے پر استدلال کیا جاتا ہے، اس کے الفاظ حسب ذیل ہیں ، حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : ((رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم اِذَا کَانَ قَائِمًا فِی الصَّلَاۃِ، قَبَضَ بِیَمِینِہِ عَلٰی شِمَالِہِ)) ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جب بھی آپ نماز میں کھڑے ہوتے تو آپ اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر باندھ (رکھ) لیتے۔‘‘[1] اس حدیث سے زیر بحث مقام پر ہاتھ باندھنے کا استدلال دو لفظوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، ایک لفظِ اِذَا (جب بھی) اور دوسرا فی الصلاۃ (نماز میں ) سے۔ ان کے نزدیک اس حدیث میں دو عموم ہیں ، ’’جب بھی‘‘ اور ’’نماز میں ‘‘ یعنی جب بھی آپ نماز میں کھڑے ہوتے تو ہاتھ باندھ لیتے اور چونکہ قومہ بھی قیام ہی ہے، اس لیے رکوع کے بعد بھی ہاتھ باندھنے مسنون ہیں ۔ اب ذرا اس استدلال پر غور فرمائیں : امام نسائی یہ روایت کتاب الافتتاح (نماز کا آغاز) میں لائے ہیں اور اس کتاب کے تحت امام صاحب نے 83 باب قائم کیے ہیں جن سب کا تعلق نماز کے پہلے رکن قیام (آغاز نماز) سے ہے۔ 83 ابواب کے بعد 84 واں باب، باب التکبیر للرکوع (رکوع کے لیے اللہ اکبر کہنا) باب باندھا ہے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ ان 83 ابواب میں جتنی بھی حدیثیں وہ لائے ہیں کسی میں تکبیر تحریمہ کا، کسی میں رفع الیدین کا، کسی میں ہاتھ باندھنے کا اور کسی میں قراء ت کا اور دیگر مسائل کا بیان ہے اور سب کا تعلق حالتِ قیام سے ہے۔ اس کے بعد 84 ویں باب سے رکوع کے مسائل کا ذکر شروع ہوا ہے، رکوع کس طرح کرنا ہے، رکوع میں جاتے وقت اللہ اکبر کہنا ہے، رفع الیدین کرنا ہے، رکوع میں کیا پڑھنا ہے، پھر رکوع سے
[1] سنن النسائي، حدیث: 888۔