کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 139
کو نظر انداز کردینا، اہل باطل کا شیوہ رہا ہے اور ان کا یہی شیوہ آج بھی ہے۔ اسی سے راہِ حق سے انحراف بھی ہوتا ہے اور اسی سے اس انحراف پر ان کو جمے رہنے کا حوصلہ بھی ملتا ہے۔ یہی وہ طریق استدلال ہے جو اکثر و بیشتر گمراہیوں کی بنیاد ہے۔ اہل حق میں بھی بعض مسائل میں جو کج رَوی یا کج فہمی آجاتی ہے، اس کی بنیاد بھی یہی طریقِ استدلال ہے جو بوجوہ اسے اختیار کرلیتے ہیں اور یوں وہ اہل حق میں سے ہونے کے باوجود بعض مسائل میں دوسرے اہل حق سے الگ ہوجاتے ہیں ۔ اہل حق کے درمیان انہی مختلف فیہ مسائل میں سے ایک مسئلہ رکوع کے بعد (قومے میں ) ہاتھ باندھنے یا نہ باندھنے کا ہے جس میں کوئی ابہام یا اشکال تو نہیں ہے لیکن بعض اہل علم نے اس کو بھی ایک مسئلہ بنادیا ہے جس کی وجہ سے بعض جگہ یہ مسئلہ اہلحدیث عوام میں انتشار کا باعث بناہوا ہے۔ ہم ذیل میں اس مسئلے کی صحیح نوعیت اللہ تعالیٰ کی توفیق اور مدد سے پیش کرتے ہیں جس سے امید ہے کہ ان شاء اللہ مسئلہ نکھر کر سامنے آجائے گا اور غور وفکر کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور باشعور طبقے کے لیے بھی اس کی بابت صحیح فیصلہ کرنا آسان ہوجائے گا۔ محدثینِ کرام نے احادیث کے جو مجموعے مرتب اور مدون کیے ہیں ، ان کی فقہی ترتیب دیکھ کر ان کی خداداد فقاہت کا اعتراف کیے بغیر چارہ نہیں رہتا، اگرچہ بہت سے کور نظر ان کو نعوذ باللہ ایک عطار سے تشبیہ دیتے ہیں ، ہَدَا ہُمُ اللّٰہُ تَعَالیٰ۔ مثلاً: زیر بحث مسئلے میں محدثین کے فہم و تفقہ کا اندازہ کیجیے۔ واقعہ یہ ہے کہ جس حدیث سے رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کا اثبات کیا جاتا ہے، اسے اگر محدثین کی تبویب ہی کی روشنی میں دیکھ لیا جائے تو اسی سے مسئلہ واضح ہوجاتا ہے کہ اس حدیث کا کوئی تعلق قومے کے ساتھ نہیں ہے۔ جب اس کا تعلق ہی قومے سے نہیں ہے تو قومے میں ہاتھ باندھنے کا اثبات اس سے کس طرح ہوسکتا یا کیا جاسکتا ہے؟