کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 136
جماعت کے شوق میں اس طرح کام نہیں کرنا جس کا صدور حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے ہوا کیونکہ وہ نماز کے آداب و وقار کے خلاف ہے۔ مذکورہ احتمالی استدلال کے مقابلے میں واضح اور صریح نصوص ہیں جن سے قیام اور سورۂ فاتحہ کا وجوب اور ان کے نہ کرنے کی صورت میں نماز کا بُطلان ثابت ہوتا ہے۔ اس سے ہر شخص اندازہ کرسکتا ہے کہ کون سا موقف مضبوط، احوط اور اسلم ہے۔ ﴿ أَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴾ دوسرا استدلال ان حضرات کا بعض احادیث سے ہے جن میں اس قسم کے الفاظ ہیں جن کا مفہوم یہ ہوسکتا ہے کہ رکوع میں ملنے والے شخص کی رکعت ہوجائے گی۔ یہ احادیث اگر اپنے مفہوم میں واضح اور سنداً صحیح ہوتیں تو واقعی ان سے استدلال صحیح ہوتا اور حدیث ابوبکرہ میں وارد الفاظ ’لَا تَعُدْ‘ کے ایک مفہوم کو متعین کرنے کے لیے مضبوط قرینہ بھی بن جاتیں لیکن واقعہ ایسا نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں جو روایات پیش کی جاتی ہیں ، ان میں سے جو اس موقف پر صراحۃً دلالت کرتی ہیں وہ سنداً صحیح نہیں ہیں اور جو بعض صحیح ہیں ، ان سے استدلال غلط ہے اس لیے کہ وہ اس مفہوم پر دلالت نہیں کرتیں جو ان سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تفصیل اور محولہ روایات کی تحقیق کے لیے ملاحظہ ہو مجموعۂ فتاوی وجوابات حافظ عبد المنان صاحب نورپوری، شیخ الحدیث جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ حفظہ اللہ تعالیٰ، بنام ’’احکام و مسائل‘‘ جلد اول، صفحات 169-161۔ جلد دوم صفحات 214، 218، 226، 228۔ نیز ملاحظہ ہو۔ ’’فتاوی اہلحدیث‘‘ از محدث روپڑی رحمہ اللہ : 182-56/2۔ ’’فتاوی محمدیہ‘‘ از مفتی عبید اللہ عفیف حفظہ اللہ : 409394/1۔ ’’ہدایۃ السائل الی ادلۃ المسائل‘‘، ص: 186، مطبع شاہجہانی، بھوپال، یہ نواب صدیق حسن