کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 135
ایک رکعت پوری پڑھے، زیادہ رکعتیں رہ گئی ہوں تو اس ایک رکعت سمیت وہ بھی پڑھے۔
مُدرکِ رکوع کی رکعت نہ ہونے کا یہ مسئلہ بالکل واضح اور سیدھا ہے لیکن بعض اہل علم نے اس کو بھی الجھادیا ہے۔ اس سلسلے میں وہ دو طرح سے استدلال کرتے ہیں ۔
ایک حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کے واقعے سے، جس میں آتا ہے کہ انہوں نے امام کو رکوع میں دیکھا تو مسجد کے اندر داخل ہوتے ہی رکوع کرلیا اور اسی رکوع کی حالت میں چلتے ہوئے صف میں شامل ہوئے۔ بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’لَا تَعُدْ‘ آئندہ اس طرح نہ کرنا۔ حدیث میں ان کی یہ رکعت ہونے یا نہ ہونے کی کوئی صراحت نہیں ہے، حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے جماعت میں شامل ہونے کے شوق میں جو قبل از وقت رکوع کرلیا تھا، صرف ان کو آئندہ ایسا نہ کرنے کا حکم دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ رکعت لوٹانے کا حکم دیا یا نہیں ؟ یا از خود انہوں نے یہ رکعت لوٹائی یا نہیں ؟ ان دونوں پہلوؤں کی وضاحت سے حدیث خاموش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ الفاظ ’لَا تَعُدْ‘ میں بھی شارحین حدیث نے کئی احتمال ذکر کیے ہیں کہ یہ ’لَا تُعِدْ‘ بھی ہوسکتا ہے (نماز نہ لوٹانا) ’لَا تَعْدُ‘ بھی ہوسکتا ہے (دوڑ کر نہ آنا) اور ’لَا تَعُدِّ‘ بھی ہوسکتا ہے۔ (رکعت کو شمار نہ کرنا) یعنی پہلے مفہوم لَا تَعُدْ (دوبارہ نہ کرنا) ان کے علاوہ ان الفاظ میں مزید تین مفہوموں کا احتمال ہے۔ اور اصول ہے کہ کسی لفظ کے کئی مفہوم ہوسکتے ہوں تو کسی مضبوط قرینے کے بغیر اس کے کسی ایک مفہوم کو متعین کرکے اس سے استدلال باطل ہے۔
اِذَا جَائَ الْاِحْتِمَالُ بَطَلَ الْاِسْتِدْلَالُ
اس اصول سے حدیثِ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مسئلہ زیر بحث میں استدلال یکسر غلط ہے، اس سے صرف ایک مسئلے کا استنباط و استدلال صحیح ہے اور وہ ہے جو حدیث کے سیاق سے واضح ہے کہ