کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 134
بھی صحابۂ کرام نے اس کلمے کو اونچی آواز سے پڑھنے کو معمول نہیں بنایا، اگر ایسا ہوا ہوتا تو اس کی وضاحت احادیث و آثار میں ضرور ہوتی لیکن ایسی کوئی وضاحت ذخیرۂ احادیث میں نہیں ملتی۔
رہی یہ بات کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی فضیلت بیان فرمائی ہے تو یہ بلاشبہ صحیح ہے لیکن یہ فضیلت اس کلمۂ تحمید کی ہے نہ کہ اونچی آواز سے پڑھنے کی۔ اور صحابۂ کرام نے بھی بجا طور پر یہی سمجھا، اس لیے نہ اس واقعے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام نے اس کلمے کو اونچی آواز سے پڑھا اور نہ اس کے بعد اس کو بہ آواز بلند پڑھنے کو معمول بنایا۔
مُدْرِکِ رکوع مُدْرِکِ رکعت نہیں
اس عنوان کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص مسجد میں ایسے وقت میں آیا کہ امام رکوع میں تھا اور حکم یہ ہے کہ امام کو جس حال میں پاؤ، اس کے ساتھ شامل ہوجاؤ اور نماز کا جو حصہ رہ جائے وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد پورا کرلو۔ اب اس فرمانِ نبوی کے مطابق وہ آنے والا شخص رکوع میں شامل ہوگیا تو اس صورت میں اس کی وہ رکعت نہیں ہوگی اور رکوع میں ملنے کے باوجود وہ رکعت اس کو پڑھنی پڑے گی۔
یہ شخص فرمانِ نبوی کے مطابق تکبیر تحریمہ کہہ کر امام کے ساتھ رکوع میں مل گیا اور قیام نہیں کیا اور سورۂ فاتحہ بھی نہیں پڑھی، گویا نماز کے دو رکن اس سے فوت ہوگئے اور اصول ہے کہ اگر نماز کا کوئی رکن ادا کرنے سے رہ جائے تو وہ رکعت شمار نہیں ہوگی، یوں اس کی ایک رکعت رہ گئی۔ اب دوسرا فرمان نبوی ہے کہ جو حصہ رہ جائے اسے پور۱ کرلو، اس فرمان کی رُو سے اس مقتدی کے لیے ضروری ہے کہ وہ رکوع میں ملنے والی رکعت شمار نہ کرے کیونکہ اس سے ایک نہیں ، دو رکن فوت ہوگئے ہیں اور اس رکعت کو امام کے سلام پھیرنے کے بعد پورا کرے، یعنی