کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 130
خلاف سنت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ’’ وَلَا الضَّالِّينَ ‘‘ کے بعد اُونچی آواز سے آمین کہتے تھے اور آپ اتنی آواز سے کہتے تھے کہ پہلی صف میں آپ کے اِردگرد کے لوگ سن لیتے۔[1] حضرت عبداللہ بن زبیر اور ان کے مقتدی اتنی بلند آواز سے آمین کہتے تھے کہ مسجد گونج اُٹھتی تھی۔[2] اِس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے، جس میں آپ نے فرمایا: ’’جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، جس شخص کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہو گئی تو اس کے پہلے سب گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔‘‘[3] اِس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام اور مقتدی دونوں کو آمین اونچی آواز سے کہنی چاہیے۔ آمین کے معنی اور آمین کہنے کا ادب : آمین کے معنی ہیں : قبول فرما، یعنی اے اللہ! سورۂ فاتحہ کے آخر میں ہم نے صراطِ مستقیم کی جو دُعا مانگی ہے، اسے قبول فرما۔ گویا آمین کہنا، قبولیتِ دعا کی درخواست کرنا ہے، اس لیے آمین کا اونچی آواز سے کہنا تو بلاشک و شبہ صحیح ہے۔ لیکن اس میں عاجزی اور انکساری کا اظہار بھی ضروری ہے، اس لیے آواز کو اتنا بلند کرنا کہ تواضع اور عاجزی کی حدود سے نکل جائے، صحیح نہیں ۔ بنا بریں آمین کہتے ہوئے آواز ضرور بلند کی جائے لیکن گلا نہ پھاڑا جائے کہ اِس میں بے ادبی و گستاخی ہے، جبکہ یہ موقع اپنی بندگی و عاجزی کے اظہار کا ہے۔ سورۂ فاتحہ کے بعد : اگر جہری نماز جماعت کے ساتھ پڑھی جا رہی ہو تو اس صورت میں مقتدی کو سورۂ فاتحہ پڑھنے کے بعد خاموشی کے ساتھ امام کی قراء ت سننی چاہیے، البتہ سری یا انفرادی نماز ہو تو پھر سورۂ فاتحہ کے بعد قرآنِ کریم کی چند آیات یا کوئی ایک سورت پڑھی جائے، جیسے سورۂ اخلاص، سورۂ فلق، سورۂ ناس یا کوئی اور سورت۔ آپ بڑی سے بڑی سورت بھی پڑھ
[1] جامع الترمذي ، الصلاۃ، باب ماجاء فی التأمین، حدیث: 248، وسنن أبي داود، باب التأمین وراء الإمام، حدیث: 932۔ [2] صحیح البخاري، باب جہر الإمام بالتأمین، قبل الحدیث: 780 معلقًا ۔ [3] صحیح البخاري ، الأذان، باب جہر الإمام بالتأمین، حدیث: 780، وصحیح مسلم ، الصلاۃ، باب التسمیع والتحمید والتأمین، حدیث: 410۔