کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 127
فاتحہ پڑھے، ورنہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم کا پڑھنا کافی ہے۔ حسب ذیل تعوذ سب سے زیادہ صحیح ہے: ((اَعُوْذُ بِاللّٰہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیْمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ مِنْ ھَمْزِہٖ وَنَفْخِہٖ وَنَفْثِہٖ)) ’’میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کی (جو) سننے والا جاننے والا ہے، شیطانِ مردود سے، اس کی دِیوانگی سے، اس کے کِبْر سے اور اس کے شعروں سے۔‘‘[1] ملحوظہ 1: مذکورہ تعوذ کی جگہ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ السَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ بھی (جو مشہور ہے) پڑھنا جائز ہے۔ ملحوظہ 2: ((مِنْ ہَمْزِہٖ وَنَفْخِہٖ وَنَفْثِہٖ)) ان الفاظ کا ترجمہ عام طور پر کیا جاتا ہے: ’’اس کے وسوسے، اس کی پھونک اور اس کے جادو سے۔‘‘ لغت اور مفہوم کے اعتبار سے یہ ترجمہ بھی درست ہے۔ لیکن ہم نے جو ترجمہ کیا ہے، وہ بعض صحابہ سے مروی ہے،[2]اس لیے وہ راجح ہے۔ ملحوظہ 3: امام جہری نماز میں بسم اللہ اونچی آواز سے بھی پڑھ سکتا ہے اور سری بھی، تا ہم سری (آہستہ) آواز میں پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔ لیکن بسم اللہ کا پڑھنا ضروری ہے۔ ملحوظہ 4: جہری نمازوں میں جب امام قراء ت کررہا ہو تو بعد میں آنے والا مقتدی دعائے استفتاح نہ پڑھے بلکہ اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھ کر صر ف سورۂ فاتحہ پڑھ لے، باقی قراء ت خاموشی کے ساتھ سُنے۔ ﴿بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ﴾
[1] سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 776، وصحیح ابن خزیمۃ : حدیث: 775، وإرواء الغلیل: 53-51/2 ، وصفۃ صلاۃ النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم للألبانی، ص: 77-76۔ [2] نیل الأوطار: 220/2، وصفۃ صلاۃ النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم للألبانی، ص: 76۔