کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 125
امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی ایک باب، باب الاشارۃ فی الصلاۃ، باندھا ہے جس کے تحت تین احادیث سے نماز میں مطلق اشارے کا اثبات کیا ہے، یعنی بوقت ضرورت کسی بھی معاملے کے لیے نماز میں ہاتھ سے اشارہ کرنا جائز ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ان احادیث کی شرح میں لکھتے ہیں : و فیہ رد علی من منع الاشارۃ بالسلام وجوز مطلق الاشارۃ، لانہ لا فرق بین ان یشیر آمراً بالجلوس او یشیر مخبراً برد السلام۔ ’’اس میں ان لوگوں کا رد ہے جو مطلق اشارے کو تو جائز قرار دیتے ہیں لیکن سلام کا جواب اشارے سے دینے سے منع کرتے ہیں ، اس لیے کہ نماز کی حالت میں اشارے کے ساتھ بیٹھنے کا حکم دینے میں یا سلام کا جواب اشارے سے دینے میں کوئی فرق نہیں ہے۔‘‘[1] استفتاح کی دعائیں نماز شروع کرنے کی دعا: نماز کے آغاز میں بسم اللہ پڑھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس موقعے پر یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر تحریمہ کے بعد حسب ذیل دعا پڑھتے تھے : ((اَللّٰھُمَّ بَاعِدْ بَیْنِیْ وَبَیْنَ خَطَایَايَ کَمَا بَاعَدْتَّ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اَللّٰھُمَّ نَقِّنِي مِنَ الْخَطَایَا کَمَا یُنْقَّي الثَّوًُ الْاَبْیَضُ مِنَ
[1] فتح الباري: 140/3۔