کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 124
سینے پر ہی ہاتھ باندھنا ثابت ہوتا ہے۔ فالحمد للّٰہ نمازی سلام کا جواب اشارے سے دے نماز میں کلام کرنا ممنوع ہے لیکن مسجد میں آنے والا اگر سلام کرے تو نمازی ہاتھ کے اشارے سے جواب دے دے۔ بعض لوگ مسجد میں داخل ہوتے وقت سلام کرنے سے روکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس طرح نمازیوں کی نماز میں خلل پڑتا ہے۔ لیکن یہ روکنا صحیح نہیں ہے۔ ایک تو اس لیے کہ سلام عام کرنے اور پھیلانے کا جو حکم ہے، اس کے تحت مسجد میں آنے والے کو بھی سلام کرنا چاہیے۔ چاہے جماعت بھی کھڑی ہو یالوگ سنتیں ، نوافل پڑھ رہے ہوں ، دوسرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کے عمل سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے: حدیث میں آتا ہے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ((کَیْفَ کَانَ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَرُدُّ عَلَیْہِمْ حِینَ کَانُوا یُسَلِّمُونَ عَلَیْہِ وَ ہُوَ فِی الصَّلَاۃِ؟)) ’’جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے ہوتے اور صحابہ آپ کو سلام کرتے تو آپ کس طرح سلام کا جواب دیتے تھے؟‘‘ حضرت بلال نے جواب دیا: ((کَانَ یُشِیرُ بِیَدِہِ)) ’’آپ ہاتھ کے اشارے سے جواب دیتے تھے۔‘‘[1] محدثین کرام نے اس مسئلے کے اثبات کے لیے باقاعدہ باب باندھے ہیں اور انہی احادیث سے استدلال کیا ہے، جیسے امام ابوداود، امام ابن ماجہ اور دیگر ائمہ نے تبویب کی ہے۔
[1] جامع الترمذي، الصلاۃ، باب ما جاء فی الاشارۃ فی الصلاۃ، حدیث: 368۔ باب رد السلام فی الصلاۃ، حدیث: 27۔ (ابوداود) اور ابن ماجہ کی تبویب ہے: باب المصلی یُسَلَّمْ عَلَیہ کیف یرد، حدیث: 1017۔ مُصنَّف عبد الرزاق، باب الاشارۃ فی الصلاۃ: 258/2۔