کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 118
’’اور جو شخص برا عمل کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے، پھر وہ اللہ سے بخشش مانگے تو وہ اللہ کو بہت بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا پائے گا۔‘‘[1] ان آیات کریمہ میں جس طرح کافروں کے لیے خوش خبری ہے، گناہ گار مسلمانوں کے لیے بھی نوید جاں فزا ہے۔ بشرطیکہ وہ دونوں ہی سچے دل سے تائب ہوجائیں اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کرلیں ۔ نہ کافروں کو اللہ کی رحمت سے مایوس ہونے کی ضرورت ہے اور نہ گناہ گار مسلمانوں کو ۔ وہ دونوں ہی کے لیے یکساں مہربان اور غفور رحیم ہے۔ ٭ اسی طرح نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اپنی صفیں درست کرو، اس لیے کہ صفوں کا درست کرنا نماز کو مکمل کرنا ہے فَاِنَّ تَسْوِیَۃَ الصُّفُوفِ مِنْ اِقَامَۃِ۔اَوْ۔ مِنْ تَمَامِ الصَّلاَۃِ (متفق علیہ) ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنی صفیں درست کرو، اپنے کندھے برابر کرلو اور صفوں کے درمیان شگاف بند کرلو، اپنے بھائیوں کے ہاتھوں کے لیے نرم ہوجاؤ اور شیطان کے لیے درمیان میں شگاف نہ چھوڑو۔‘‘ الحدیث (سنن ابوداؤد) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ صف میں خلا چھوڑنا شیطان کو خلل اندازی کا موقع مہیا کرنا ہے۔ ٭ اسی طرح تعدیل ارکان بہت ضروری ہے۔ تعدیل ارکان کا مطلب ہے رکوع، سجدہ، قومہ و جلسہ وغیرہ اطمینان سے کرنا۔ عام طور پر دیکھاجاتا ہے کہ بہت سے لوگ رکوع میں سرجھکاتے ہی فوراً اٹھالیتے ہیں ، اسی طرح سجدہ اس طرح کرتے ہیں کہ پیشانی زمین پر ٹیکتے ہی اٹھالیتے ہیں ۔اس طرح نہ رکوع ہوتا ہے اور نہ سجدہ۔ رکوع کے بعد قومہ ہوتا ہے، جس کی بابت حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنی دیر تک رکوع
[1] النسآء 110/4۔