کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 114
اس صورت میں مقتدیوں کی نماز توصحیح ہے، کیونکہ وہ تو بے قصور اور بے خبر تھے، البتہ امام کے لیے نماز کا لوٹانا ضروری ہے کیونکہ نماز کے لیے طہارت شرط ہے جو نسیان سے باطل نہیں ہوگی۔ اس کو جب بھی یاد آئے گا وہ نماز دوبارہ پڑھے گا۔ ایک دوسری صورت یہ ہے کہ کپڑے یا بدن پر کوئی نجاست لگی ہوئی ہے اور نماز کے بعد اس کا علم ہو، ایسی صورت میں امام اور مقتدی دونوں کی نمازیں صحیح ہیں ۔ اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں نماز کی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے اتارنے کا ذکر ہے، آپ کی دیکھا دیکھی صحابہ نے بھی اپنے اپنے جوتے اتار دیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تو جوتے اس لیے اتارے تھے کہ ان میں گندگی لگی ہوئی تھی، یعنی تمہیں جوتے اتارنے کی ضرورت نہیں تھی، اور آپ نے نماز دوبارہ نہیں پڑھی، نہ صحابہ ہی کو پڑھنے کا حکم دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس صورت میں امام اور مقتدی دونوں کی نمازیں صحیح ہیں ۔ فوت شدہ نمازیں ادا کرنے کا مسئلہ : نماز کے فوت یا قضا ہو جانے کا مطلب، اسے اپنے وقت پر نہ پڑھنا ہے۔ اس کی تین صورتیں ہیں : ٭ ایک یہ کہ انسان بھول جائے یا سویا ہوا رہ جائے۔ اس صورت میں حکم یہ ہے کہ جب بھی اسے یاد آ جائے یا بیدار ہو جائے تو وہ نماز پڑھ لے۔ ٭ دوسری صورت یہ ہے کہ کسی شدید مجبوری کی وجہ سے نماز نہ پڑھ سکے۔ اس کا حکم بھی یہی ہے کہ فراغت پاتے ہی فوراً اسے ادا کر لے، اسے دوسرے دن کے لیے نہ رکھے،جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگِ خندق کے موقع پر کیا جس کی مختصر تفصیل پہلے گزر چکی ہے، مثلاً : ظہر کی نماز رہ گئی ہے تو اسے یا تو عصر سے پہلے ہی پڑھ لے۔اگر عصر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے کی وجہ سے وہ ظہر کی نماز پہلے نہیں پڑھ سکتا تو عصر کی نماز کے بعد فوراً پڑھ لے۔ ٭ عصر کے بعد سورج کے زرد ہونے تک نوافل پڑھے جاسکتے ہیں اور فوت شدہ نماز تو بطریقِ