کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 112
رہتے ہیں اور پھر بعد میں مسجد میں جا کر دوسری جماعت کرا لیتے ہیں اور بعض دفعہ تو تین تین، چار چار مرتبہ جماعتیں ہوتی ہیں ۔ یہ تساہل اور اصل جماعت سے گریز اور دوسری تیسری جماعت کو معمول بنا لینا قطعاً حدیث سے ثابت نہیں ہوتا۔ حدیث میں ایک اتفاقی واقعہ مذکور ہے جس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی عذر کی وجہ سے کسی کی جماعت رہ جائے تو مسجد میں موجود کوئی شخص (امام یا مقتدی بن کر) اس کے ساتھ مل کر نماز پڑھ لے، کسی گروہ کے گروہ کا جماعت سے پیچھے رہنا اور پھر بعد میں اپنی جماعت کرانا اور اسے عادت کے طور پر اختیار کر لینا، اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ علاوہ ازیں اس قسم کی دوسری جماعتوں سے جہری نمازوں میں لوگوں کے لیے سنتیں پڑھنی مشکل ہو جاتی ہیں ۔ اِس لیے ہر شخص کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اصل جماعت کے ساتھ مقررہ امام کی اقتدا ہی میں نماز پڑھے اور دوسری جماعت کے جواز کی بنیاد پر تساہل، تغافل اور تخلف (پیچھے رہنے) کا مظاہرہ نہ کرے۔ ٭ اسی سے ملتی جلتی ایک صورت اور ہے کہ ایک شخص اکیلا نماز پڑھ رہا ہے، ایک دوسرا آکر جماعت کی نیت سے اس کے ساتھ مل جاتا ہے تو پہلا شخص امام اور دوسرا مقتدی بن جاتا ہے۔ یہ صورت بھی جائز ہے۔ امام بخاری نے اس صورت کے جواز کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس واقعے سے استدلال کیاہے کہ آپ تہجد کی نماز پڑھ رہے تھے کہ حضرت ابن عباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب آکر کھڑے ہوگئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پکڑ کر اپنی دائیں جانب کردیا اور دونوں نے یوں باجماعت نماز تہجد ادا کی۔ امام بخاری نے اس سے دو مسئلوں کا اثبات کیا ہے۔ ایک یہ کہ اس عمل سے دونوں کی نماز فاسد نہیں ہوگی، جیسا کہ بعض لوگ اس عمل کو عمل کثیر قرارد ے کر فسادِ نماز کے قائل ہیں ۔ دوسرا مسئلہ یہ کہ پہلے شخص نے امامت کی نیت نہیں کی تھی لیکن دوسرے شخص یا اشخاص کے ملنے کے بعد امام بن کر وہ ان کو نماز پڑھا سکتا ہے ۔ دیکھیے صحیح البخاري، الاذان، ترجمۃ الباب علٰی حدیث نمبر 698اور حدیث