کتاب: مسنون نماز اور روز مرہ کی دعائیں - صفحہ 111
ہے۔ اگر مقتدی کے لیے وقت کی گنجائش ہو تو وہ ملنے والی رکعت کا آغاز دعائے استفتاح سے کرے، پھر اعوذ باللہ، بسم اللہ پرھ کر سورۂ فاتحہ اور سورت پڑھے۔ لیکن اگر وقت کم ہو تو صرف سورۂ فاتحہ پڑھ لے، اسی طرح اگر نماز جہری ہے، تب بھی صرف سورۂ فاتحہ پڑھ لے۔ ہر دو صورت میں مقتدی کی یہ پہلی رکعت ہی ہوگی۔
بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ امام سہواً پانچ رکعات پڑھا دیتا ہے، ایسی صورت میں دوسری رکعت میں ملنے والے مقتدی کی چار رکعتیں پوری ہوجاتی ہیں ، تو کیا اس کے بعد بھی اس کے لیے ایک رکعت پڑھنی ضروری ہے؟ نہیں ، بلکہ ایسی صورت میں مقتدی کی بھی چار رکعتیں پوری ہوگئیں ، اسے سلام پھیرنے کے بعد ایک رکعت پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے، البتہ امام کے ساتھ اسے سجدۂ سہو کرنا ہوگا۔
دوبارہ جماعت کا جوازمگر… : حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا چکے تو ایک
آدمی آیا، آپ نے فرمایا: ’’کون ہے جو اس پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے؟‘‘ (تاکہ اس کی اِس نیکی سے اسے بھی جماعت کا ثواب مل جائے) تو ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے اس کے ساتھ نماز پڑھی۔[1]
اس حدیث سے یہ واضح ہے کہ جس شخص نے بعد میں آنے والے شخص کے ساتھ مل کر نماز پڑھی وہ پہلے جماعت کے ساتھ نماز پڑھ چکا تھالیکن اس نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے پر دوبارہ نماز پڑھی تاکہ آنے والے کو جماعت کا ثواب مل جائے۔ اس سے دوبارہ جماعت کا جواز تو یقینا ثابت ہوتا ہے لیکن اس رواج کی تائید نہیں ہوتی، جو آج کل بعض حلقوں میں عام ہے کہ بہت سے لوگ اصل جماعت کو تو اہمیت نہیں دیتے اور بیٹھے رہتے یا کام میں مصروف
[1] سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 574، وجامع الترمذي، أبواب الصلاۃ، حدیث: 220۔